ETV Bharat / bharat

چین کے ساتھ کشیدگی کے درمیان روس اور امریکہ کے ساتھ بھارت کے دفاعی تعلقات پر توجہ - AROONIM BHUYAN on bharat china tension

ای ٹی وی بھارت کے لئے ممتاز صحافی و بین الاقوامی امور کے ماہر ارونم بھویان نے بھارت - چین تنازع پر ایک خصوصی رپورٹ لکھی ہے۔ جسے قارئین کی خدمت میں من و عن پیش کیا جارہا ہے۔

tensions
tensions
author img

By

Published : Jun 29, 2020, 7:59 AM IST

عالمی وبا کے باوجود لداخ میں کشیدگی پیدا کرکے چین نے اپنے توسیع پسندانہ عزائم سامنے لائے ہیں۔ ایسے میں روس و امریکہ جیسی بڑی طاقتوں کے ساتھ بھارت کے دفاعی تعلقات پہلی بار انتہائی اہمیت کے حامل ہوگئے ہیں۔ چناچہ وزیرِ داخلہ راجناتھ سنگھ دوسری عالمی جنگ میں روس کی فتح کا پچتھرواں دن منائے جانے کی تقریب (وکٹری ڈے) میں شرکت کیلئے اس ہفتے کی ابتدأ میں روس کے تین روزہ دورے پر روانہ ہوئے۔ تو دوسری جانب امریکہ کے وزیرِ داخلہ مائیک پومپیو نے کہا کہ بھارت، ملیشیأ، انڈونیشیأ اور باالخصوص جنوب چینی سمندری علاقہ کو درپیش چینی خطرے سے نپٹنے کیلئے امریکی افواج کو یورپ سے دیگر جگہوں پر منتقل کیا جارہا ہے ۔

بھارت اور چین کے درمیان کشیدگی
بھارت اور چین کے درمیان کشیدگی

22-24 جون کے اس ماسکو دورے کے دوران راجناتھ سنگھ نے ملک کے نائبِ وزیرِ اعظم یوری بوریسوؤ کے ساتھ منگل کو میٹنگ کرنے کے بعد یوں ٹویٹ کیا 'نائبِ وزیرِ اعظم کے ساتھ میرا تبادلۂ خیال بہت مثبت اور ثمربار رہا۔ مجھے یقین دہانی کرائی گئی ہے کہ جاری ٹھیکوں کو بنائے رکھا جائے گا اور بنائے ہی نہیں رکھا جائے گا بلکہ مختصر مدت میں انکی تعداد کو آگے بڑھایا جائے گا۔انہوں نے مزید کہا کہ بھارت کی سبھی تجاویز پر روس کا مثبت ردِ عمل آیا ہے۔ راجناتھ سنگھ اور بوریسوؤ سائنس اور تیکنالوجی سے متعلق بھارت-روس اعلیٰ سطحی کمیٹی کے مشترکہ سربراہ ہیں۔

اس دوران اس بات کا کوئی خلاصہ نہیں کیا گیا ہے کہ بھارت کا روس سے کیا مطالبہ ہے البتہ یہ بات آسانی سے تصور کی جاسکتی ہے کہ جن معاملات کو زیرِ بحث لایا گیا ہوگا ان میں زمین سے ہوا میں دور تک مار کرنے والا ایس400- ٹرمف میزائل نظام شامل ہوگا۔ بھارت اور روس کے 2018 کے سالانہ دو طرفہ سمِٹ کے حاشیہ پر وزیرِ اعظم نریندرا مودی اور روسی صدر ولادمیر پوتن نے نئی دہلی میں 5.4 ارب ڈالر کے میزائل سودا پر دستخط کئے تھے۔ جنوری 2018 میں امریکی انتظامیہ کے اپنے حریفوں کا پابندیوں کے ذریعہ توڑ کئے جانے کے قانون (کونٹرنگ امیریکاز ایڈورسریز تھرو سینکشنز یا سی اے اے ٹی ایس اے) کے نافذ العمل ہوجانے کے بعد بھارت اور روس کی ایس 400- میزائل ڈیل سے متعلق قیاس آرائیاں شروع ہوگئی تھیں۔ سی اے اے ٹی ایس اے کا نشانہ وہ ممالک ہیں کہ جو روس،ایران اور شمالی کوریا کی دفاعی کمپنیوں کے ساتھ کاروبار کرتے ہیں۔

چین کے ذریعہ کشیدگی پیدا کرنے
چین کے ذریعہ کشیدگی پیدا کرنے

امریکی سینیٹروں کے ایک گروہ نے بقول اُن کے یوکرین اور شام میں جاری جنگ میں ماسکو کی لگاتار شمولیت اور 2016 کے امریکی صدارتی انتخاب میں اسکی مبینہ مداخلت کی وجہ سے روس پر پابندیاں لگادی ہیں۔

گزشتہ سال جون میں امریکہ میں اُس وقت کے پرنسپل ڈپٹی اسسٹنٹ سکریٹری برائے جنوب و وسطی ایشیأ الائس ویلز نے خارجی امور کی سب کمیٹی کے ایوانِ نمائندگان (ہاوس آف ریپریزنٹیٹیوز ہاوس فارئن افیئرس سب کمیٹی) کے سامنے ایک سرکاری بیان میں کہا کہ ایس400 دفاعی نظام کا سودا تیزی سے بڑھتے ہوئے بھارت-امریکہ تعلقات کو محدود کرسکتا ہے۔ ایک خاص وقت پر شراکت داری کے حوالے سے اسٹریٹجک انتخاب کرنا ہوتا ہے اور اس بارے میں بھی اسٹریٹجک انتخاب کرنا ہوتا ہے کہ ایک ملک کون سے ہتھیار اور نظام اپنانے جارہا ہے۔

اطلاعات کے مطابق امریکہ نے بھارت کو زمین سے فضا میں مار کرنے کی صلاحیت والا ایم آئی ایم۔104ایف پیٹریاٹ (پیک۔3) میزائل دفاعی نظام اور ٹرمنل ہائی الٹیٹیوڈ ائریا ڈیفنس (ٹی ایچ اے اے ڈی) فراہم کرنے کی پیش کش کی تھی تاہم بھارت نے روس کے ساتھ ایس 400 سودا پر آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا۔ ماہرین کے مطابق ایس 400 اس وقت دنیا میں موجود اعلیٰ ترین ہوائی دفاعی نظاموں میں شامل ہے۔ یہ در اصل ایک ملٹی فنکشنل ریڈار کا پتہ لگانے اور اسے نشانہ بنانے کا خود مختار نظام، اینٹی ائر کرافٹ میزائل نظام، لانچرس اور کمانڈ و کنٹرول سنٹر کو مربوط کرنے والا جامع نظام ہے اور اس میں تہہ دار دفاع کھڑا کرنے کیلئے تین طرح کے میزائل چلانے کی صلاحیت ہے۔ army-technology.com ویب سائٹ پر اس ہتھیار کی صلاحیتوں سے متعلق یہ وضاحت درج ہے ۔ یہ دفاعی نظام 30 کلومیٹر کی بلندی پر اور 400کلومیٹر کی حدود میں ہر طرح کے فضائی نشانوں، بشمولِ اینٹی ائر کرافٹ ،بغیرِ پائلٹ کی فضائی گاڑیوں(یو اے وی) اور بیلسٹک و کروز میزائل کے، کام کرسکتا ہے۔ ایس400- سابق روسی فضائی دفاعی نظام کے مقابلے میں دوگنا مؤثر ہے اور اسے پانچ منٹ میں کام پر لگایا جاسکتا ہے۔ اسے بحری اور ہوائی فوج کے موجودہ اور مستقبل کے دفاعی نظاموں کے ساتھ بھی مربوط کیا جاسکتا ہے۔

بھارت کی دفاعی
بھارت کی دفاعی

واشنگٹن میں گذشتہ سال اکتوبر میں ایک تقریب پر وزیرِ خارجہ جئے شنکر نے کہا کہ بھارت نے ایس۔400 کے معاملے پر امریکہ کے ساتھ بات کی ہے اور وہ منوانے کی اسکی طاقت کے معقول حد تک قائل ہیں۔ ایک روسی صحافی کے سوال کے جواب میں جئے شنکر نے کہا کہ مجھے امید ہوگی کہ لوگ اس بات کو سمجھیں گے کہ یہ خاص لین دین ہمارے لئے کیوں اہم ہے، لہٰذا میں سمجھتا ہوں کہ آپکا مجھ سے یہ سوال فرضی ہے۔

اس کے بعد گذشتہ سال نومبر میں امریکی وزارتِ داخلہ کے ایک سینئر عہدیدار کے حوالے سے میڈیا میں آئے اس بیان میں جس میں کہا گیا کہ سی اے اے ٹی ایس اے پابندیوں کے نافذ العمل ہونے کا وقت تجویز نہیں ہوا ہے اور یہ حتمی نہیں ہے ۔ اس طرح امریکہ نے بھارت پر سی اے اے ٹی ایس اے کے تحت پابندیاں نہ لگانے کا اشارہ دیا۔ اس عہدیدار نے کہا کہ بھارت کو روس کی جاسوسی کو روکنے کیلئے دفاعی نظام کو سخت کرنا ہوگا۔

راجناتھ سنگھ کا ٹویٹ
راجناتھ سنگھ کا ٹویٹ

امیجن انڈیا انسٹیچیوٹ کے صدر اور امریکہ۔بھارت پولیٹکل ایکشن کمیٹی کے بانی ممبر و ڈائریکٹر رابندر سچدیو کے مطابق ایس400 کے سودا پر امریکہ کا بھارت کو استثنیٰ کہا گیا یا نہ کہا گیا، جہاں تک سی اے اے ٹی ایس اے کی پابندیوں کا تعلق ہے اسے اس معاملے پر آگے بڑھنے کی اجازت دی گئی ہے۔ سچدیو نے راجناتھ سنگھ کے دورۂ روس کے بعد ای ٹی وی بھارت کو کہا کہ یہ (اجازت) اس پیغام کے ساتھ دی گئی ہے کہ مستقبل میں بھارت کو سی اے اے ٹی ایس اے کی دفعات کے مطابق روس سے دفاعی خریداری میں تخفیف کرنا چاہیئے‘‘۔ اُنہوں نے یہ بھی کہا کہ مذاکرات کے دوران امریکہ نے موجودہ جغرافیائی سیاسی صورتحال (جیو پولیٹکل سچویشن) کی وجہ سے ایس 400- کے سودا کو ہری جھنڈی دکھائی۔ سچدیو نے کہا’’ اُس (امریکہ) نے بھارت سے یہ یقین دہانی لے لی ہے کہ وہ ایران پر واشنگٹن کی عائد کردہ پابندیوں کی مکمل تعمیل کرے گا‘‘۔

2018 میں امریکہ جوائیٹ کمپریہنسیو پلان آف ایکشن (جے سی پی او اے) ، جس پر تہران نے اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کے پانچ مستقل ارکان (پی فائیو)، جرمی اور یورپی یونین کے ساتھ دستخط کئے تھے، سے باہر آگیا اور ایران پر اسکے مبینہ نوکلیائی پروگرام کی وجہ سے نئی پابندیاں لگائیں۔

اسکے بعد بھارت نے گذشتہ سال سے اپنے دوسرے بڑے سپلائیر ایران سے تیل کی درآمد روک دی۔ تاہم امریکہ نے جنوبی ایران میں بھارت کی چباہر بندرگاہ کی ترقی پر کوئی اعتراض نہیں کیا۔ بھارت افغانستان اور ایران کے ساتھ مشترکہ طور سے اس بندرگاہ کو ترقی دے رہا ہے جو بھارت، ایران، افغانستان، آرمینیا، آذربائجان، روس، وسطی ایشیأ اور یورپ کے درمیان مال برداری کیلئے استعمال ہونے جارہے، آبی جہازوں، ریل اور سڑک کے 7200 کلومیٹر لمبے ملٹی موڈل نیٹ ورک انٹرنیشنل نارتھ ساوتھ ٹرانسپورٹ کوریڈور (آئی این ایس ٹی سی) میں ایک اہم ربط بننے جارہی ہے۔ بھارت اس بندرگاہ کی ترقی اور وہاں سے پاکستان کو یکطرف کرتے ہوئے افغانستان کو سڑک رابطہ فراہم کرنے کیلئے 500 ملین ڈالر کی رقم کی سرمایہ کاری کر رہا ہے۔

راجناتھ سنگھ
راجناتھ سنگھ

اب 15-16 جون کی رات کو لداخ میں 20 بھارتی فوجیوں کی ہلاکت پر منتج ہونے والی قرونِ وسطیٰ کے زمانے کی طرز کی تصادم آرائی کے بعد بھارت کی دونوں،روس اور امریکہ،کے ساتھ دفاعی تعلق داری جیو اسٹریٹجک اہمیت کے لحاظ سے توجہ کا مرکز بن گئی ہے۔

راجناتھ سنگھ کے دورۂ روس کے موقع پر جمعرات کو امریکی وزیرِ خارجہ پومپیو نے برسلز فورم ،جو بحرِ اوقیانوس کے ایجنڈے کی تشکیل کے لئے ایک اولین پلیٹ فارم ہے، میں کہا کہ چین اُس ساری ترقی کو ختم کرنا چاہتا ہے جو آزاد دنیا کے تحت کی گئی ہے اور یہی وجہ ہے کہ واشنگٹن یورپ میں اپنی فوج کو کم کرکے اسے دنیا کے دیگر حصوں میں تعینات کر رہا ہے۔ بھارتی فوجیوں کی ہلاکت پر تعزیت کا اظہار کرتے ہوئے اُنہوں نے کہا کہ ’’پی ایل اے (چین کی پیوپلز لبریشن آرمی) نے بھارت کے ساتھ،جو دنیا کی سب سے زیادہ آبادی والی جمہوریت ہے، سرحدی کشیدگی بڑھادی ہے۔ چین جنوب چینی سمندر میں فوجی جماؤ کر رہا ہےاور غیر قانونی طور وہاں مزید علاقے پر دعویٰ کرتے ہوئے اہم سمندری راہداریوں کو خطرے میں ڈال رہا ہے‘‘۔ اس سے بنیادی طور پر یہ ظاہر ہوتا ہے کہ چینی فوج کے ذریع بھارتی علاقہ میں دخل اندازی خطے میں بیجنگ کے علاقائی عزائم کی تازہ ترین مثال ہے۔ مبصرین کے مطابق چونکہ ووہان سے پیدا ہونے والی مہلک بیماری کووِڈ19- کے بارے میں بر وقت نہ بتانے کیلئے بیجنگ عالمی تنقید کے نشانے پر ہے ، چینی صدر ذی جِنگپِنگ خود کو درپیش داخلی دباؤ سے توجہ ہٹانے کیلئے یہ ایک اور ’’ڈائورشنری ٹیکٹِک‘‘ کے بطور استعمال کر رہے ہیں۔

بھارت، امریکہ، جاپان اور آسٹریلیا اس گروہ میں شامل ہے جو بحرالکاہل، جاپان کے مشرقی ساحل سے لیکر افریقہ کے مشرقی ساحل تک پھیلے علاقہ میں امن و خوشحالی کیلئے کام کرنا چاہتے ہیں۔ علاقے میں بیجنگ کی بڑھتی ہوئی موجودگی اور جنوب چینی سمندر میں اسکی جارحیت کی وجہ سے یہ اہمیت کا حامل ہوجاتا ہے۔ چین جنوب چینی سمندر کے اسپریٹلی اور پارسل جزیروں میں خطہ کے دیگر ممالک کے ساتھ تنازعات میں گھرا ہوا ہے، جہاں اسپریٹلی جزیروں کے دیگر دعویدار برنائی، ملیشیأ، فلپائنز، تائیوان اور ویتنام ہیں۔ پارسل جزیروں پر ویتنام اور تائیوان کی دعویداری ہے۔ ہیگ میں قائم مستقل عدالت برائے ثالثی نے سنہ 2016 میں فیصلہ دیا تھا کہ چین نے بحیرہ جنوبی چین میں فلپائن کے حقوق کی خلاف ورزی کی ہے، جو دنیا کے مصروف ترین تجارتی بحری راستوں میں سے ایک ہے۔ عدالت نے چین پر فلپائن کی ماہی گیری اور پٹرولیم کی تلاش میں مداخلت کرنے ، پانیوں میں مصنوعی جزیرے تعمیر کرنے اور چینی ماہی گیروں کو اس زون میں مچھلی پکڑنے سے روکنے میں ناکام رہنے کا الزام عائد کیا۔ اس ہفتے ایک بار پھر ویتنام اور فلپائن نے بحیرہ جنوبی چین میں چین کی بار بار سمندری قوانین کی خلاف ورزیوں پر تشویش کا اظہار کیا۔

ویتنام کے وزیرِ اعظم نوئن فوان فوک کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ اُنہوں نے ایسوسی ایشن آف ساؤتھ ایسٹ ایشئن نیشنز (اے ایس ای اے این) کے قائدین کے ایک مجاذی اجلاس میں کہا ہے ’’اگرچہ پوری دنیا کی حالت (کووِڈ – 19) وبائی مرض کے خلاف جنگ میں پتلی ہوئی ہے۔ اس کے باوجود بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی پر غیر ذمہ دارانہ کاروائیاں اب بھی ہو رہی ہیں۔ جس سے ہمارے خطے سمیت بعض علاقوں کی سلامتی اور استحکام متاثر ہوتا ہے"۔

چین حال ہی میں ایک بار پھر جاپان اور تائیوان کے ساتھ بھی علاقائی تنازعات میں ملوث رہا ہے۔ اس ماہ کے اوائل میں جاپان کے ساحلی محافظوں نے اطلاع دی کہ چین کے 67 سرکاری بحری جہاز بحر مشرقی چینی سمندر میں سنکاکو جزیروں، جنہیں چین دیاؤ جزیرے کہتا ہے، کے قریب دیکھے گئے ہیں۔ ان جزیروں پر بیجنگ اور ٹوکیو دونوں دعویٰ کرتے ہیں۔ دریں اثنا چینی ائر فورس کے جہازوں نے اس ماہ کم از کم چار بار تائیوان کی فضائی حدود میں گھس کر مشرق ایشیائی ملک کو سرگرم ردِ عمل دکھانے کی خاطر اپنے جٹ جہازوں کو متحرک کرنے پر مجبور کیا۔ چین خود مختار تائیوان کو اپنا علاقہ مانتا ہے اور دیگر ممالک کو تائپئے کی سفارتی شناخت تسلیم نہ کرنے پر مجبور کرتا ہے۔

چین کی جانب سے پیدا کردہ اس تمام جیو پولیٹکل ہنگامہ کے بیچ بھارت کے روس اور امریکہ جیسی بڑی طاقتوں کے ساتھ دفاعی تعلقات نے اب بڑی اہمیت حاصل کر لی ہے۔جہاں بھارت روس کے ساتھ ایک ’’خصوصی اور استحقاقاتی اسٹریٹجک شراکت داری" کا شریک ہے ، امریکہ کے ساتھ اس کے تعلقات کو "جامع عالمی اسٹریٹجک شراکت داری" کے بطور بڑھا دیا گیا ہے۔

2016 میں امریکہ نے بھارت کو ایک ’’بڑے دفاعی شراکت دار‘‘کے بطور تسلیم کیا جو نئی دہلی کو واشنگٹن کے قریب ترین اتحادیوں اور شراکت داروں کے برابر لاتا ہے۔اس سے امریکہ بھارت کے ساتھ دفاعی تیکنالوجی بانٹنے کا پابند بنتا ہے۔

عالمی وبا کے باوجود لداخ میں کشیدگی پیدا کرکے چین نے اپنے توسیع پسندانہ عزائم سامنے لائے ہیں۔ ایسے میں روس و امریکہ جیسی بڑی طاقتوں کے ساتھ بھارت کے دفاعی تعلقات پہلی بار انتہائی اہمیت کے حامل ہوگئے ہیں۔ چناچہ وزیرِ داخلہ راجناتھ سنگھ دوسری عالمی جنگ میں روس کی فتح کا پچتھرواں دن منائے جانے کی تقریب (وکٹری ڈے) میں شرکت کیلئے اس ہفتے کی ابتدأ میں روس کے تین روزہ دورے پر روانہ ہوئے۔ تو دوسری جانب امریکہ کے وزیرِ داخلہ مائیک پومپیو نے کہا کہ بھارت، ملیشیأ، انڈونیشیأ اور باالخصوص جنوب چینی سمندری علاقہ کو درپیش چینی خطرے سے نپٹنے کیلئے امریکی افواج کو یورپ سے دیگر جگہوں پر منتقل کیا جارہا ہے ۔

بھارت اور چین کے درمیان کشیدگی
بھارت اور چین کے درمیان کشیدگی

22-24 جون کے اس ماسکو دورے کے دوران راجناتھ سنگھ نے ملک کے نائبِ وزیرِ اعظم یوری بوریسوؤ کے ساتھ منگل کو میٹنگ کرنے کے بعد یوں ٹویٹ کیا 'نائبِ وزیرِ اعظم کے ساتھ میرا تبادلۂ خیال بہت مثبت اور ثمربار رہا۔ مجھے یقین دہانی کرائی گئی ہے کہ جاری ٹھیکوں کو بنائے رکھا جائے گا اور بنائے ہی نہیں رکھا جائے گا بلکہ مختصر مدت میں انکی تعداد کو آگے بڑھایا جائے گا۔انہوں نے مزید کہا کہ بھارت کی سبھی تجاویز پر روس کا مثبت ردِ عمل آیا ہے۔ راجناتھ سنگھ اور بوریسوؤ سائنس اور تیکنالوجی سے متعلق بھارت-روس اعلیٰ سطحی کمیٹی کے مشترکہ سربراہ ہیں۔

اس دوران اس بات کا کوئی خلاصہ نہیں کیا گیا ہے کہ بھارت کا روس سے کیا مطالبہ ہے البتہ یہ بات آسانی سے تصور کی جاسکتی ہے کہ جن معاملات کو زیرِ بحث لایا گیا ہوگا ان میں زمین سے ہوا میں دور تک مار کرنے والا ایس400- ٹرمف میزائل نظام شامل ہوگا۔ بھارت اور روس کے 2018 کے سالانہ دو طرفہ سمِٹ کے حاشیہ پر وزیرِ اعظم نریندرا مودی اور روسی صدر ولادمیر پوتن نے نئی دہلی میں 5.4 ارب ڈالر کے میزائل سودا پر دستخط کئے تھے۔ جنوری 2018 میں امریکی انتظامیہ کے اپنے حریفوں کا پابندیوں کے ذریعہ توڑ کئے جانے کے قانون (کونٹرنگ امیریکاز ایڈورسریز تھرو سینکشنز یا سی اے اے ٹی ایس اے) کے نافذ العمل ہوجانے کے بعد بھارت اور روس کی ایس 400- میزائل ڈیل سے متعلق قیاس آرائیاں شروع ہوگئی تھیں۔ سی اے اے ٹی ایس اے کا نشانہ وہ ممالک ہیں کہ جو روس،ایران اور شمالی کوریا کی دفاعی کمپنیوں کے ساتھ کاروبار کرتے ہیں۔

چین کے ذریعہ کشیدگی پیدا کرنے
چین کے ذریعہ کشیدگی پیدا کرنے

امریکی سینیٹروں کے ایک گروہ نے بقول اُن کے یوکرین اور شام میں جاری جنگ میں ماسکو کی لگاتار شمولیت اور 2016 کے امریکی صدارتی انتخاب میں اسکی مبینہ مداخلت کی وجہ سے روس پر پابندیاں لگادی ہیں۔

گزشتہ سال جون میں امریکہ میں اُس وقت کے پرنسپل ڈپٹی اسسٹنٹ سکریٹری برائے جنوب و وسطی ایشیأ الائس ویلز نے خارجی امور کی سب کمیٹی کے ایوانِ نمائندگان (ہاوس آف ریپریزنٹیٹیوز ہاوس فارئن افیئرس سب کمیٹی) کے سامنے ایک سرکاری بیان میں کہا کہ ایس400 دفاعی نظام کا سودا تیزی سے بڑھتے ہوئے بھارت-امریکہ تعلقات کو محدود کرسکتا ہے۔ ایک خاص وقت پر شراکت داری کے حوالے سے اسٹریٹجک انتخاب کرنا ہوتا ہے اور اس بارے میں بھی اسٹریٹجک انتخاب کرنا ہوتا ہے کہ ایک ملک کون سے ہتھیار اور نظام اپنانے جارہا ہے۔

اطلاعات کے مطابق امریکہ نے بھارت کو زمین سے فضا میں مار کرنے کی صلاحیت والا ایم آئی ایم۔104ایف پیٹریاٹ (پیک۔3) میزائل دفاعی نظام اور ٹرمنل ہائی الٹیٹیوڈ ائریا ڈیفنس (ٹی ایچ اے اے ڈی) فراہم کرنے کی پیش کش کی تھی تاہم بھارت نے روس کے ساتھ ایس 400 سودا پر آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا۔ ماہرین کے مطابق ایس 400 اس وقت دنیا میں موجود اعلیٰ ترین ہوائی دفاعی نظاموں میں شامل ہے۔ یہ در اصل ایک ملٹی فنکشنل ریڈار کا پتہ لگانے اور اسے نشانہ بنانے کا خود مختار نظام، اینٹی ائر کرافٹ میزائل نظام، لانچرس اور کمانڈ و کنٹرول سنٹر کو مربوط کرنے والا جامع نظام ہے اور اس میں تہہ دار دفاع کھڑا کرنے کیلئے تین طرح کے میزائل چلانے کی صلاحیت ہے۔ army-technology.com ویب سائٹ پر اس ہتھیار کی صلاحیتوں سے متعلق یہ وضاحت درج ہے ۔ یہ دفاعی نظام 30 کلومیٹر کی بلندی پر اور 400کلومیٹر کی حدود میں ہر طرح کے فضائی نشانوں، بشمولِ اینٹی ائر کرافٹ ،بغیرِ پائلٹ کی فضائی گاڑیوں(یو اے وی) اور بیلسٹک و کروز میزائل کے، کام کرسکتا ہے۔ ایس400- سابق روسی فضائی دفاعی نظام کے مقابلے میں دوگنا مؤثر ہے اور اسے پانچ منٹ میں کام پر لگایا جاسکتا ہے۔ اسے بحری اور ہوائی فوج کے موجودہ اور مستقبل کے دفاعی نظاموں کے ساتھ بھی مربوط کیا جاسکتا ہے۔

بھارت کی دفاعی
بھارت کی دفاعی

واشنگٹن میں گذشتہ سال اکتوبر میں ایک تقریب پر وزیرِ خارجہ جئے شنکر نے کہا کہ بھارت نے ایس۔400 کے معاملے پر امریکہ کے ساتھ بات کی ہے اور وہ منوانے کی اسکی طاقت کے معقول حد تک قائل ہیں۔ ایک روسی صحافی کے سوال کے جواب میں جئے شنکر نے کہا کہ مجھے امید ہوگی کہ لوگ اس بات کو سمجھیں گے کہ یہ خاص لین دین ہمارے لئے کیوں اہم ہے، لہٰذا میں سمجھتا ہوں کہ آپکا مجھ سے یہ سوال فرضی ہے۔

اس کے بعد گذشتہ سال نومبر میں امریکی وزارتِ داخلہ کے ایک سینئر عہدیدار کے حوالے سے میڈیا میں آئے اس بیان میں جس میں کہا گیا کہ سی اے اے ٹی ایس اے پابندیوں کے نافذ العمل ہونے کا وقت تجویز نہیں ہوا ہے اور یہ حتمی نہیں ہے ۔ اس طرح امریکہ نے بھارت پر سی اے اے ٹی ایس اے کے تحت پابندیاں نہ لگانے کا اشارہ دیا۔ اس عہدیدار نے کہا کہ بھارت کو روس کی جاسوسی کو روکنے کیلئے دفاعی نظام کو سخت کرنا ہوگا۔

راجناتھ سنگھ کا ٹویٹ
راجناتھ سنگھ کا ٹویٹ

امیجن انڈیا انسٹیچیوٹ کے صدر اور امریکہ۔بھارت پولیٹکل ایکشن کمیٹی کے بانی ممبر و ڈائریکٹر رابندر سچدیو کے مطابق ایس400 کے سودا پر امریکہ کا بھارت کو استثنیٰ کہا گیا یا نہ کہا گیا، جہاں تک سی اے اے ٹی ایس اے کی پابندیوں کا تعلق ہے اسے اس معاملے پر آگے بڑھنے کی اجازت دی گئی ہے۔ سچدیو نے راجناتھ سنگھ کے دورۂ روس کے بعد ای ٹی وی بھارت کو کہا کہ یہ (اجازت) اس پیغام کے ساتھ دی گئی ہے کہ مستقبل میں بھارت کو سی اے اے ٹی ایس اے کی دفعات کے مطابق روس سے دفاعی خریداری میں تخفیف کرنا چاہیئے‘‘۔ اُنہوں نے یہ بھی کہا کہ مذاکرات کے دوران امریکہ نے موجودہ جغرافیائی سیاسی صورتحال (جیو پولیٹکل سچویشن) کی وجہ سے ایس 400- کے سودا کو ہری جھنڈی دکھائی۔ سچدیو نے کہا’’ اُس (امریکہ) نے بھارت سے یہ یقین دہانی لے لی ہے کہ وہ ایران پر واشنگٹن کی عائد کردہ پابندیوں کی مکمل تعمیل کرے گا‘‘۔

2018 میں امریکہ جوائیٹ کمپریہنسیو پلان آف ایکشن (جے سی پی او اے) ، جس پر تہران نے اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کے پانچ مستقل ارکان (پی فائیو)، جرمی اور یورپی یونین کے ساتھ دستخط کئے تھے، سے باہر آگیا اور ایران پر اسکے مبینہ نوکلیائی پروگرام کی وجہ سے نئی پابندیاں لگائیں۔

اسکے بعد بھارت نے گذشتہ سال سے اپنے دوسرے بڑے سپلائیر ایران سے تیل کی درآمد روک دی۔ تاہم امریکہ نے جنوبی ایران میں بھارت کی چباہر بندرگاہ کی ترقی پر کوئی اعتراض نہیں کیا۔ بھارت افغانستان اور ایران کے ساتھ مشترکہ طور سے اس بندرگاہ کو ترقی دے رہا ہے جو بھارت، ایران، افغانستان، آرمینیا، آذربائجان، روس، وسطی ایشیأ اور یورپ کے درمیان مال برداری کیلئے استعمال ہونے جارہے، آبی جہازوں، ریل اور سڑک کے 7200 کلومیٹر لمبے ملٹی موڈل نیٹ ورک انٹرنیشنل نارتھ ساوتھ ٹرانسپورٹ کوریڈور (آئی این ایس ٹی سی) میں ایک اہم ربط بننے جارہی ہے۔ بھارت اس بندرگاہ کی ترقی اور وہاں سے پاکستان کو یکطرف کرتے ہوئے افغانستان کو سڑک رابطہ فراہم کرنے کیلئے 500 ملین ڈالر کی رقم کی سرمایہ کاری کر رہا ہے۔

راجناتھ سنگھ
راجناتھ سنگھ

اب 15-16 جون کی رات کو لداخ میں 20 بھارتی فوجیوں کی ہلاکت پر منتج ہونے والی قرونِ وسطیٰ کے زمانے کی طرز کی تصادم آرائی کے بعد بھارت کی دونوں،روس اور امریکہ،کے ساتھ دفاعی تعلق داری جیو اسٹریٹجک اہمیت کے لحاظ سے توجہ کا مرکز بن گئی ہے۔

راجناتھ سنگھ کے دورۂ روس کے موقع پر جمعرات کو امریکی وزیرِ خارجہ پومپیو نے برسلز فورم ،جو بحرِ اوقیانوس کے ایجنڈے کی تشکیل کے لئے ایک اولین پلیٹ فارم ہے، میں کہا کہ چین اُس ساری ترقی کو ختم کرنا چاہتا ہے جو آزاد دنیا کے تحت کی گئی ہے اور یہی وجہ ہے کہ واشنگٹن یورپ میں اپنی فوج کو کم کرکے اسے دنیا کے دیگر حصوں میں تعینات کر رہا ہے۔ بھارتی فوجیوں کی ہلاکت پر تعزیت کا اظہار کرتے ہوئے اُنہوں نے کہا کہ ’’پی ایل اے (چین کی پیوپلز لبریشن آرمی) نے بھارت کے ساتھ،جو دنیا کی سب سے زیادہ آبادی والی جمہوریت ہے، سرحدی کشیدگی بڑھادی ہے۔ چین جنوب چینی سمندر میں فوجی جماؤ کر رہا ہےاور غیر قانونی طور وہاں مزید علاقے پر دعویٰ کرتے ہوئے اہم سمندری راہداریوں کو خطرے میں ڈال رہا ہے‘‘۔ اس سے بنیادی طور پر یہ ظاہر ہوتا ہے کہ چینی فوج کے ذریع بھارتی علاقہ میں دخل اندازی خطے میں بیجنگ کے علاقائی عزائم کی تازہ ترین مثال ہے۔ مبصرین کے مطابق چونکہ ووہان سے پیدا ہونے والی مہلک بیماری کووِڈ19- کے بارے میں بر وقت نہ بتانے کیلئے بیجنگ عالمی تنقید کے نشانے پر ہے ، چینی صدر ذی جِنگپِنگ خود کو درپیش داخلی دباؤ سے توجہ ہٹانے کیلئے یہ ایک اور ’’ڈائورشنری ٹیکٹِک‘‘ کے بطور استعمال کر رہے ہیں۔

بھارت، امریکہ، جاپان اور آسٹریلیا اس گروہ میں شامل ہے جو بحرالکاہل، جاپان کے مشرقی ساحل سے لیکر افریقہ کے مشرقی ساحل تک پھیلے علاقہ میں امن و خوشحالی کیلئے کام کرنا چاہتے ہیں۔ علاقے میں بیجنگ کی بڑھتی ہوئی موجودگی اور جنوب چینی سمندر میں اسکی جارحیت کی وجہ سے یہ اہمیت کا حامل ہوجاتا ہے۔ چین جنوب چینی سمندر کے اسپریٹلی اور پارسل جزیروں میں خطہ کے دیگر ممالک کے ساتھ تنازعات میں گھرا ہوا ہے، جہاں اسپریٹلی جزیروں کے دیگر دعویدار برنائی، ملیشیأ، فلپائنز، تائیوان اور ویتنام ہیں۔ پارسل جزیروں پر ویتنام اور تائیوان کی دعویداری ہے۔ ہیگ میں قائم مستقل عدالت برائے ثالثی نے سنہ 2016 میں فیصلہ دیا تھا کہ چین نے بحیرہ جنوبی چین میں فلپائن کے حقوق کی خلاف ورزی کی ہے، جو دنیا کے مصروف ترین تجارتی بحری راستوں میں سے ایک ہے۔ عدالت نے چین پر فلپائن کی ماہی گیری اور پٹرولیم کی تلاش میں مداخلت کرنے ، پانیوں میں مصنوعی جزیرے تعمیر کرنے اور چینی ماہی گیروں کو اس زون میں مچھلی پکڑنے سے روکنے میں ناکام رہنے کا الزام عائد کیا۔ اس ہفتے ایک بار پھر ویتنام اور فلپائن نے بحیرہ جنوبی چین میں چین کی بار بار سمندری قوانین کی خلاف ورزیوں پر تشویش کا اظہار کیا۔

ویتنام کے وزیرِ اعظم نوئن فوان فوک کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ اُنہوں نے ایسوسی ایشن آف ساؤتھ ایسٹ ایشئن نیشنز (اے ایس ای اے این) کے قائدین کے ایک مجاذی اجلاس میں کہا ہے ’’اگرچہ پوری دنیا کی حالت (کووِڈ – 19) وبائی مرض کے خلاف جنگ میں پتلی ہوئی ہے۔ اس کے باوجود بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی پر غیر ذمہ دارانہ کاروائیاں اب بھی ہو رہی ہیں۔ جس سے ہمارے خطے سمیت بعض علاقوں کی سلامتی اور استحکام متاثر ہوتا ہے"۔

چین حال ہی میں ایک بار پھر جاپان اور تائیوان کے ساتھ بھی علاقائی تنازعات میں ملوث رہا ہے۔ اس ماہ کے اوائل میں جاپان کے ساحلی محافظوں نے اطلاع دی کہ چین کے 67 سرکاری بحری جہاز بحر مشرقی چینی سمندر میں سنکاکو جزیروں، جنہیں چین دیاؤ جزیرے کہتا ہے، کے قریب دیکھے گئے ہیں۔ ان جزیروں پر بیجنگ اور ٹوکیو دونوں دعویٰ کرتے ہیں۔ دریں اثنا چینی ائر فورس کے جہازوں نے اس ماہ کم از کم چار بار تائیوان کی فضائی حدود میں گھس کر مشرق ایشیائی ملک کو سرگرم ردِ عمل دکھانے کی خاطر اپنے جٹ جہازوں کو متحرک کرنے پر مجبور کیا۔ چین خود مختار تائیوان کو اپنا علاقہ مانتا ہے اور دیگر ممالک کو تائپئے کی سفارتی شناخت تسلیم نہ کرنے پر مجبور کرتا ہے۔

چین کی جانب سے پیدا کردہ اس تمام جیو پولیٹکل ہنگامہ کے بیچ بھارت کے روس اور امریکہ جیسی بڑی طاقتوں کے ساتھ دفاعی تعلقات نے اب بڑی اہمیت حاصل کر لی ہے۔جہاں بھارت روس کے ساتھ ایک ’’خصوصی اور استحقاقاتی اسٹریٹجک شراکت داری" کا شریک ہے ، امریکہ کے ساتھ اس کے تعلقات کو "جامع عالمی اسٹریٹجک شراکت داری" کے بطور بڑھا دیا گیا ہے۔

2016 میں امریکہ نے بھارت کو ایک ’’بڑے دفاعی شراکت دار‘‘کے بطور تسلیم کیا جو نئی دہلی کو واشنگٹن کے قریب ترین اتحادیوں اور شراکت داروں کے برابر لاتا ہے۔اس سے امریکہ بھارت کے ساتھ دفاعی تیکنالوجی بانٹنے کا پابند بنتا ہے۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.