ETV Bharat / bharat

امن بحالی کا گاندھیائی نظریہ

جدید دُنیا کے مرحلے میں کئی نامور رہنما گاندھی جی سے کہیں زیادہ عظیم اور اہمیت کے حامل ہیں لیکن ان میں بہت کم ایسی شخصیات ہیں جنہوں نے کوئی انقلابی اثرات مرتب کیے ہوں۔

author img

By

Published : Sep 5, 2019, 4:32 PM IST

Updated : Sep 29, 2019, 1:19 PM IST

امن بحالی کا گاندھیائی نظریہ

موہن داس کرم چند گاندھی نے برطانوی حکمرانی سے آزادی حاصل کرنے کے لیے عدم تشدد اور ستیہ گرہ کے ساتھ بھارتی عوام کو جنگ آزادی میں حصہ لینے کا حوصلہ دیا۔

انہوں نے غیر معمولی بلندیوں تک پہنچنے کے لیے عام افراد کو متحرک کیا، ان کی حوصلہ افزائی کی، انہیں متاثر کیا اور ان کی رہنمائی کے لیے انقلابی تکنیکوں کو عملی جامہ پہنایا۔

گاندھی جی کے پاس سقراط کی دانشمندی، سینٹ فرانسس کی عاجزی، بودھ کی انسانیت، قدیم سنتوں کی طریقہ اور لینن کی بڑے پیمانے پر اپیل کرنے کی صلاحیت تھی۔

وہ ایک ماہر اسٹریٹیجسٹ اور مثالی رہنما تھے۔ انہوں نے بھارت کے لیے مشترکہ نظریے سے آزادی کو دیکھا اور کسی بھی طرح کی خونریزی کے بغیر اسے حاصل کیا۔ وہ ایک بہترین بات چیت کرنے والے شخص تھے، لاکھوں افراد نے متعدد امور پر ان کی آواز کے ساتھ آواز ملائی۔ان کی تعلیمات صرف بھارت کے لیے نہیں تھیں بلکہ پوری دنیا کے لیے تھی۔ ان کی تعلیمات عالمگیر تبلیغ کی حیثیت رکھتی ہیں۔ وہ اپنے خیالات، الفاظ اور اعمال میں کامل تھے۔ انہوں نے کئی بار کہا کہ ان کی زندگی ایک پیغام ہے۔

امن بحالی کا گاندھیائی نظریہ
امن بحالی کا گاندھیائی نظریہ

آج کل کے دور میں تنازعات بڑی اور چھوٹی سطح پر ایک خطرہ بن چکے ہیں۔ تنازعے کی بنیاد ذاتی، نسلی، طبقاتی، سیاسی، علاقائی، قومی اور بین الاقوامی ہو سکتی ہے۔ تنازع اختلاف رائے کا بڑھنا ہے جو اس کی عام شرط ہے جس میں فریق ایک دوسرے کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں۔

برتری، ناانصافی، کمزوری، عدم اعتماد اور لاچاری وہ یقین ہے جو گروہوں کو تنازعات کی طرف بڑھاتے ہیں۔ تنازعات کی تعداد میں بے حد اضافہ ہو رہا ہے کیونکہ ہم پرامن طریقوں کے ذریعے تنازعات کو حل کرنے کے گاندھیائی طریقے کو بھول چکے ہیں۔

ایک سوال یہ بھی ہے کہ ہم کتنے دانشور اور احمق۔ آج دانشمندی اور بے وقوفی ساتھ چل رہی ہیں۔ بارش میں ایک شخص سوراخ والی چھتری کا استعمال کر رہا ہے اور ان دنوں دنیا میں اس کی نمائندگی کی جارہی ہے۔

20 ویں صدی سے ہی دنیا میں تشدد ایک وباء کی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔ دوسری عالمی جنگ کے دوران اگست 1945 میں ہیروشیما اور ناگاساکی کے ایٹم بم دھماکوں کے بعد سے ایٹمی مسلح طاقتوں کے مابین تیسری عالمی جنگ کا تصور کیا جارہا ہے۔

دو عالمی جنگوں کے علاوہ تقریباً 250 معمولی جنگوں میں پچاس ملین سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔اس وقت پوری دنیا میں 40 سے زائد تنازعات ہیں۔ یہاں تک کہ گھریلو تشدد میں بھی بے حد اضافہ ہوا ہے۔ ہم تشدد کے زیر سایہ زندگی گزار رہے ہیں اور اس زمین پر کوئی زندگی محفوظ نہیں ہے۔

دنیا کے تمام ممالک کے فوجی اخراجات میں 1822 بلین امریکی ڈالر خرچ ہوئے ہیں۔ یہاں تک کہ بھارت نے امریکہ، چین اور سعودی عرب کے بعد فوجی اخراجات میں دنیا میں چوتھے نمبر پر 66.5 بلین امریکی ڈالر خرچ کیے ہیں۔ بھارت میں سرگرم فوجی اہلکار چین میں 21 لاکھ کے بعد تقریباً 15 لاکھ کے ساتھ دنیا میں دوسرے نمبر پر ہے۔

ترقی یافتہ ممالک قومی سلامتی کے نام پر فوجی اخراجات پر بیس گنا زیادہ خرچ کرتے ہیں جتنا وہ معاشی ترقی کے لیے فراہم کرتے ہیں۔ دنیا میں 70 فیصد عالمی فوجی اخراجات چھ بڑی فوجی طاقتوں کے ذریعہ، 15 فیصد دوسرے صنعتی ممالک اور باقی 15 فیصد ترقی پذیر ممالک کے ذریعے ہیں۔

چین ، بھارت اور پاکستان سبھی نئے بیلسٹک میزائل، کروز میزائل اور سمندر پر مبنی جوہری ترسیل کے نظام پر عمل پیرا ہیں۔ اس کے علاوہ عام شہری اپنی حفاظت کے لیے بندوقیں تھامے ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ عام شہری اپنی حفاظت کے لیے بندوقیں تھامے ہوئے ہیں۔دنیا کی ایک ارب بندوقیں 85 فیصد شہریوں کے ہاتھ میں ہیں۔

اگر ہم گاندھیائی طریقے پر چلیں تو کیا یہ سب ضروری ہے؟ گاندھیائی طریقہ عالمی آرڈر کا بنیادی مقصد امن کی ثقافت کو فروغ دینا ہے جس کے تحت انسان جارحیت پر قابو پا سکے گا اور پرامن بقائے باہمی کی پالیسی یا کم از کم غیر فوجی عالمی مقابلے کی پالیسی پر عمل کرنے کے لیے تیار ہو۔ان کے لیے جنگ بے انصاف ہے کیونکہ یہ عدم تشدد کے اصول اور مذہب کے اعلی قانون کی خلاف ورزی ہے۔

گاندھی جی جنگ کو اقلیت کی تخلیق سمجھتے تھے جو اکثریت پر اپنی مرضی مسلط کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ انہوں نے تمام تنازعات چاہے ذاتی یا بین الاقوامی کو حل کرنے کے لیے اخلاقی ذرائع تجویز کرنے کو اہمیت دی۔

گاندھی جی نے محسوس کیا کہ تشدد ہی تشدد کو جنم دیتا ہے اور عدم تشدد کے ذریعہ ہی تشدد کو ختم کیا جاسکتا ہے۔گاندھی جی نے تنازعات کا عدم تشدد کے زریعے حل اور عالمی امن کے قیام کے لیے لاکھوں لوگوں کو متحرک کرنے کا مشورہ دیا۔

گاندھی جی کے مطابق امن کی عدم موجودگی سماجی ، قومی اور بین الاقوامی شعبوں میں تناؤ کا سبب اور اثر ہے۔ امن لوگوں کو جوڑے رکھنے کی ایک قوت حاصل رکھتا ہے۔ جنگ عالمی امن کے فروغ میں کبھی بھی اپنا کردار ادا نہیں کر سکتی۔

آئیے! ہم گاندھی جی کے نظریات کو دوبارہ سرانجام دیں تاکہ ان کی 150 ویں یوم پیدائش کے موقع پر انھیں ایک حقیقی خراج تحسین پیش کیا جائے۔

موہن داس کرم چند گاندھی نے برطانوی حکمرانی سے آزادی حاصل کرنے کے لیے عدم تشدد اور ستیہ گرہ کے ساتھ بھارتی عوام کو جنگ آزادی میں حصہ لینے کا حوصلہ دیا۔

انہوں نے غیر معمولی بلندیوں تک پہنچنے کے لیے عام افراد کو متحرک کیا، ان کی حوصلہ افزائی کی، انہیں متاثر کیا اور ان کی رہنمائی کے لیے انقلابی تکنیکوں کو عملی جامہ پہنایا۔

گاندھی جی کے پاس سقراط کی دانشمندی، سینٹ فرانسس کی عاجزی، بودھ کی انسانیت، قدیم سنتوں کی طریقہ اور لینن کی بڑے پیمانے پر اپیل کرنے کی صلاحیت تھی۔

وہ ایک ماہر اسٹریٹیجسٹ اور مثالی رہنما تھے۔ انہوں نے بھارت کے لیے مشترکہ نظریے سے آزادی کو دیکھا اور کسی بھی طرح کی خونریزی کے بغیر اسے حاصل کیا۔ وہ ایک بہترین بات چیت کرنے والے شخص تھے، لاکھوں افراد نے متعدد امور پر ان کی آواز کے ساتھ آواز ملائی۔ان کی تعلیمات صرف بھارت کے لیے نہیں تھیں بلکہ پوری دنیا کے لیے تھی۔ ان کی تعلیمات عالمگیر تبلیغ کی حیثیت رکھتی ہیں۔ وہ اپنے خیالات، الفاظ اور اعمال میں کامل تھے۔ انہوں نے کئی بار کہا کہ ان کی زندگی ایک پیغام ہے۔

امن بحالی کا گاندھیائی نظریہ
امن بحالی کا گاندھیائی نظریہ

آج کل کے دور میں تنازعات بڑی اور چھوٹی سطح پر ایک خطرہ بن چکے ہیں۔ تنازعے کی بنیاد ذاتی، نسلی، طبقاتی، سیاسی، علاقائی، قومی اور بین الاقوامی ہو سکتی ہے۔ تنازع اختلاف رائے کا بڑھنا ہے جو اس کی عام شرط ہے جس میں فریق ایک دوسرے کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں۔

برتری، ناانصافی، کمزوری، عدم اعتماد اور لاچاری وہ یقین ہے جو گروہوں کو تنازعات کی طرف بڑھاتے ہیں۔ تنازعات کی تعداد میں بے حد اضافہ ہو رہا ہے کیونکہ ہم پرامن طریقوں کے ذریعے تنازعات کو حل کرنے کے گاندھیائی طریقے کو بھول چکے ہیں۔

ایک سوال یہ بھی ہے کہ ہم کتنے دانشور اور احمق۔ آج دانشمندی اور بے وقوفی ساتھ چل رہی ہیں۔ بارش میں ایک شخص سوراخ والی چھتری کا استعمال کر رہا ہے اور ان دنوں دنیا میں اس کی نمائندگی کی جارہی ہے۔

20 ویں صدی سے ہی دنیا میں تشدد ایک وباء کی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔ دوسری عالمی جنگ کے دوران اگست 1945 میں ہیروشیما اور ناگاساکی کے ایٹم بم دھماکوں کے بعد سے ایٹمی مسلح طاقتوں کے مابین تیسری عالمی جنگ کا تصور کیا جارہا ہے۔

دو عالمی جنگوں کے علاوہ تقریباً 250 معمولی جنگوں میں پچاس ملین سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔اس وقت پوری دنیا میں 40 سے زائد تنازعات ہیں۔ یہاں تک کہ گھریلو تشدد میں بھی بے حد اضافہ ہوا ہے۔ ہم تشدد کے زیر سایہ زندگی گزار رہے ہیں اور اس زمین پر کوئی زندگی محفوظ نہیں ہے۔

دنیا کے تمام ممالک کے فوجی اخراجات میں 1822 بلین امریکی ڈالر خرچ ہوئے ہیں۔ یہاں تک کہ بھارت نے امریکہ، چین اور سعودی عرب کے بعد فوجی اخراجات میں دنیا میں چوتھے نمبر پر 66.5 بلین امریکی ڈالر خرچ کیے ہیں۔ بھارت میں سرگرم فوجی اہلکار چین میں 21 لاکھ کے بعد تقریباً 15 لاکھ کے ساتھ دنیا میں دوسرے نمبر پر ہے۔

ترقی یافتہ ممالک قومی سلامتی کے نام پر فوجی اخراجات پر بیس گنا زیادہ خرچ کرتے ہیں جتنا وہ معاشی ترقی کے لیے فراہم کرتے ہیں۔ دنیا میں 70 فیصد عالمی فوجی اخراجات چھ بڑی فوجی طاقتوں کے ذریعہ، 15 فیصد دوسرے صنعتی ممالک اور باقی 15 فیصد ترقی پذیر ممالک کے ذریعے ہیں۔

چین ، بھارت اور پاکستان سبھی نئے بیلسٹک میزائل، کروز میزائل اور سمندر پر مبنی جوہری ترسیل کے نظام پر عمل پیرا ہیں۔ اس کے علاوہ عام شہری اپنی حفاظت کے لیے بندوقیں تھامے ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ عام شہری اپنی حفاظت کے لیے بندوقیں تھامے ہوئے ہیں۔دنیا کی ایک ارب بندوقیں 85 فیصد شہریوں کے ہاتھ میں ہیں۔

اگر ہم گاندھیائی طریقے پر چلیں تو کیا یہ سب ضروری ہے؟ گاندھیائی طریقہ عالمی آرڈر کا بنیادی مقصد امن کی ثقافت کو فروغ دینا ہے جس کے تحت انسان جارحیت پر قابو پا سکے گا اور پرامن بقائے باہمی کی پالیسی یا کم از کم غیر فوجی عالمی مقابلے کی پالیسی پر عمل کرنے کے لیے تیار ہو۔ان کے لیے جنگ بے انصاف ہے کیونکہ یہ عدم تشدد کے اصول اور مذہب کے اعلی قانون کی خلاف ورزی ہے۔

گاندھی جی جنگ کو اقلیت کی تخلیق سمجھتے تھے جو اکثریت پر اپنی مرضی مسلط کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ انہوں نے تمام تنازعات چاہے ذاتی یا بین الاقوامی کو حل کرنے کے لیے اخلاقی ذرائع تجویز کرنے کو اہمیت دی۔

گاندھی جی نے محسوس کیا کہ تشدد ہی تشدد کو جنم دیتا ہے اور عدم تشدد کے ذریعہ ہی تشدد کو ختم کیا جاسکتا ہے۔گاندھی جی نے تنازعات کا عدم تشدد کے زریعے حل اور عالمی امن کے قیام کے لیے لاکھوں لوگوں کو متحرک کرنے کا مشورہ دیا۔

گاندھی جی کے مطابق امن کی عدم موجودگی سماجی ، قومی اور بین الاقوامی شعبوں میں تناؤ کا سبب اور اثر ہے۔ امن لوگوں کو جوڑے رکھنے کی ایک قوت حاصل رکھتا ہے۔ جنگ عالمی امن کے فروغ میں کبھی بھی اپنا کردار ادا نہیں کر سکتی۔

آئیے! ہم گاندھی جی کے نظریات کو دوبارہ سرانجام دیں تاکہ ان کی 150 ویں یوم پیدائش کے موقع پر انھیں ایک حقیقی خراج تحسین پیش کیا جائے۔

Intro:Body:Conclusion:
Last Updated : Sep 29, 2019, 1:19 PM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.