گزشتہ تین دنوں سے خراب موسم کے باوجود کسان تنظیموں کے لیڈران اور کارکنان دہلی کی سرحدوں پر دھرنا و مظاہرہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ آج انہوں نے اس میں مزید شدت لاتے ہوئے اور کل ہونے والی آٹھویں دور کی مذاکرات سے پہلے اپنے اتحاد اور طاقت کا مظاہرہ کرنے کے لیے بہت وسیع پیمانے پر ٹریکٹر ریلی نکالی ہے۔ کسانوں کی اس ریلی کے پیش نظر سکیورٹی کے سخت ترین انتظامات کیے گئے ہیں۔ چپے چپے پر پولیس اہلکاروں کو تعینات کیا گیا ہے اور جہاں جہاں کسان جمے ہوئے ہیں ان پر باریکی سے نظر رکھی جا رہی ہے۔
زرعی قانون کے خلاف احتجاج کررہے کسانوں نے غازی پور سرحد سے ٹریکٹر ریلی نکالی ہے۔اسی کے مدنظر کنڈلی-مانیسر-پلول ایکسپریس وے ٹول پلازہ پر سیکورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے ہیں۔
ہریانہ کے نوح میں کسانوں کے ٹریکٹر تحریک کو دیکھتے ہوئے کنڈلی۔مانیسر۔پلول ٹول پلازہ(کے ایم پی) پر سیکورٹی کو بڑھا دیا گیا ہے۔سب انسپیکٹر نے بتایا کہ انتظامیہ نے مکمل انتظامات کر رکھے ہیں۔ کسان ریلی کے کسی بھی بھی ٹریکٹر کو کے ایم پی پر چڑھنے کی اجازت نہیں ہوگی، انہیں ٹول پر ہی روک دیا جائے گا۔
کسان یونین کے ترجمان راکیش ٹکیٹ کی رہنمائی میں یہ ریلی نکالی گئی ہے۔آج صبح 11 بجے کسان نے دہلی کے غازی پور بارڈر سمیت سنگھو بارڈر، ٹیکری بارڈر اور ہریانہ، راجستھان کی سرحد کے شاہ جہاں پور سے کنڈلی مانیسر ایکسپریس وے کے لیے ٹریکٹر ریلی نکالا ہے۔
کسانوں کی ٹریکٹر ریلی کو مدنظر رکھتے ہوئے غازی پور بارڈر پر سیکورٹی کے پختہ انتظامات کیے گئے ہیں۔
بھارتی کسان یونین کے قومی ترجمان راکیش ٹکیت کسانوں کی ٹریکٹر ریلی میں محاذ سنبھالتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔ راکیش ٹکیٹ کا کہنا ہے کہ آج صرف ٹریلر ہے۔ کسان 26 جنوری کو دہلی میں اصلی پریڈ دکھائیں گے۔
راکیش ٹکیت نے کہا ہے کہ 'حکومت زرعی اصلاحات قوانین پر سلسلہ وار طریقے سے بات چیت کرنا چاہتی ہے اور اس کا ارادہ قانون میں ترمیم کا ہے جبکہ کسان تنظیمیں ان تینوں قوانین کو واپس لیے جانے پر بضد ہیں'۔
کسان تنظیموں نے اپنے مطالبات کو پورا ہونے تک جدوجہد جاری رکھنے کے عزم کا اظہار کیا اور اس تحریک کو مختلف تنظیموں کی بھی حمایت بھی مل رہی ہے۔
واضح رہے کہ گذشتہ چار جنوری کو کسان تنظیموں اور حکومت کے مابین ساتویں دورکے مذاکرات میں بھی کوئی فیصلہ نہیں ہوسکا۔ مذاکرات کے بعد وزیر زراعت نریندر سنگھ تومر نے کہا تھا کہ کسانوں کے ساتھ بات چیت بہت ہی اچھے ماحول میں ہوئی ہے اور انہیں یقین ہے کہ مسئلے کا حل جلد ہی نکل آئے گا۔ انہوں نے کہا تھا کہ حکومت نے کسانوں کے مجموعی مفادات کو مدنظر رکھ کر ہی زرعی قوانین کو بنایا ہے اور اس سے اگر انہیں کوئی پریشانی ہورہی ہے تو حکومت اس پر بات چیت کے لیے تیار ہے۔
نریندر سنگھ تومر نے کہا کہ 'کسان تنظیمیں زرعی قوانین کو واپس لینے پر بضد ہیں جبکہ حکومت ان پر نکتہ وار بات چیت کرنا چاہتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ آٹھ جنوری کو ہونے والی میٹنگ معنی خیز ہوگی اور وہ اس تنازع کے حل کا راستہ تلاش کرلیں گے۔
خیال رہے کہ گزشتہ دور کی بات چیت میں بجلی کے چارجز پر دی جارہی سبسڈی میں تبدیلی نہ کرنے اور پرالی جلانے والے کسانوں پر کارروائی نہ کیے جانے کے معاملے پر کسانوں اور حکومت کے درمیان اتفاق ہوگیا تھا لیکن زرعی اصلاحات قوانین کو واپس لینے اور ایم ایس پی کو قانونی درجہ دئے جانے پر تعطل برقرار ہے۔