وہیں دہلی میں مرکزی تفتیشی بیورو (سی بی آئی) نے الہ آباد اور کانپور میں وقف املاک کی غیر قانونی فروخت اور منتقلی کی تحقیقات کا معاملہ سنبھال لیا ہے اور اس سلسلے میں اترپردیش شیعہ وقف بورڈ کے سابق چیئرمین وسیم رضوی کے خلاف مقدمہ درج کیا ہے۔
سی بی آئی نے لکھنؤ و پریاگ راج میں بھی وقف بدعنوانی کے معاملے میں وسیم رضوی کے خلاف ایف آئی آر درج کیا ہے۔
شیعہ وقف بورڈ کے سابق چیئرمین وسیم رضوی کے خلاف گزشتہ سال 2016 میں پریاگ راج اور 2017 میں لکھنؤ کیس میں نامزد کیا گیا تھا لیکن اس وقت سے وسیم رضوی پر کوئی کاروائی نہیں ہوئی جبکہ اس کے خلاف بڑے پیمانے پر احتجاج بھی ہوا تھا۔
لکھنؤ میں ہوئے گھوٹالے میں وقف بورڈ کے دو افسران سمیت پانچ لوگ نامزد کیے گئے ہیں۔
اتر پردیش حکومت نے ان دونوں معاملوں کی جانچ سی بی آئی سے کروانے کے لیے مرکزی حکومت سے سفارش کی تھی۔
قابل ذکر ہے کہ 11 اکتوبر 2019 کو اپر چیف سیکرٹری اونیش اوستھی نے اس بابت سی بی آئی کو خط بھی لکھا تھا لیکن اس وقت وسیم رضوی پر کارروائی نہ ہو سکی۔
سی بی آئی لکھنؤ کی اینٹی کرپشن برانچ نے آئی پی سی کی دفعہ 409، 420 اور 506 کے تحت ایف آئی آر درج کی ہے، جس میں شیعہ وقف بورڈ کے سابق چیئرمین وسیم رضوی، بورڈ کے آفیسر غلام سیدین رضا، وقف انسپکٹر باقر رضا کے علاوہ نریش کرشن سومانی اور وجے کرشن سومانی کو نامزد کیا ہے۔
گزشتہ ماہ مولانا کلب جواد نے پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ 'پریاگ راج انتظامیہ اور وزیر اعظم کی جانچ پڑتال میں ثابت ہو چکا ہے کہ وسیم رضوی نے اوقاف کی جائیداد پر من مانے طریقوں سے خاص لوگوں کو بیچ کر کروڑوں روپے وصول کر کیا ہے۔'
پریس کانفرنس میں 'اثر فاؤنڈیشن' کے صدر شوکت بھارتی نے بتایا کہ الہ آباد میں امام باڑہ 'غلام حیدر' پر کیے گئے غیرقانونی قبضے اور 200 سالہ تعمیرات کو ہٹا کر چار منزلہ کمرشیل عمارت بنوا دیا۔
قابل ذکر ہے کہ ملزمان کے خلاف سخت کارروائی نہ کرنے پر اقلیتی کمیشن نے پریاگ راج ڈی ایم اور ایس ایس پی کو 29 ستمبر 2020 کو طلب کیا تھا۔
شوکت بھارتی نے اقلیتی کمیشن کے سامنے اپنا موقف رکھتے ہوئے کہا تھا کہ آپ کے حکم پر کی گئی جانچ کے بعد پریاگ راج انتظامیہ نے یہ مان لیا کہ شیعہ وقف بورڈ کے چیئرمین وسیم رضوی نے ہی امام باڑہ غلام حیدر کو منہدم کرکے اس پر چار منزلہ کمرشیل مارکیٹ بنانے کی اجازت دی تھی۔
شیعہ وقف بورڈ کے سابق چیئرمین وسیم رضوی کے خلاف مولانا کلب جواد اور دیگر لوگوں نے کاروائی کے لئے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ اور وزیر مملکت محسن رضا سے بھی اس ضمن میں کئی ملاقاتیں کی لیکن اب وسیم رضوی پر سی بی آئی نے گرفت مضبوط کی ہے۔
وسیم رضوی مسلمانوں کے خلاف ہمیشہ اپنے بیان کو لے کر سرخیوں میں رہتے ہیں۔ انہیں لگتا تھا کہ اس کے بل بوتے وہ سی بی آئی جانچ سے بچے رہیں گے۔