ریاست اترپردیش کے شہر رامپور میں معروف صحافی معصوم مرادآبادی کی مرتب کردہ دستاویزی کتاب 'مولانا محمد علی جوہر: آنکھوں دیکھی باتیں' کا رسم اجراء عمل میں آیا۔ رامپور میں واقع صولت پبلک لائبریری میں منعقد رسم اجراء کی تقریب کے موقع پر معروف علمی شخصیات نے شرکت کر کے معصوم مرادآبادی کی کاوشوں کو کافی سراہا۔
رامپور کی تاریخی صولت پبلک لائبریری میں ایک پروقار تقریب کا اہتمام کیا گیا۔ موقع تھا عظیم مجاہد آزادی مولانا محمد علی جوہر کی زندگی کے اہم گوشوں کو اجاگر کرنے والی ایک دستاویزی کتاب 'مولانا محمد علی جوہر: آنکھوں دیکھی باتیں' کا رسم اجراء کا۔ اس کتاب کو معروف صحافی معصوم مرادآبادی نے ترتیب دیا ہے۔
فخرالدین احمد میموریل کمیٹی اترپردیش کے سابق چیئرمین ڈاکٹر حسن احمد نظامی کی زیر سرپرستی اور با اہتمام کیئر ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر سوسائٹی کی جانب سے منعقد تقریب کی صدارت ڈاکٹر ظہیر علی صدیقی نے فرمائی اور مہمان خصوصی کی حیثیت سے عالمی شہرت یافتہ شاعر اظہر عنایتی نے شرکت کی جبکہ تقریب میں مہمان ذی وقار کے طور پر سین شین عالم صدر صولت پبلک لائبریری اور مولانا اسلم جاوید قاسمی موجود رہے۔
اس موقع پر ڈاکٹر شریف احمد قریشی نے کلیدی خطبہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ اس ملک کو آزادی دلانے اور وطن عزیز کی سلامتی خوشحالی اور یہاں کے امن پسند عوام کو حقیقی معنوں میں مسرت و شادمانی کی فضاء میسر ہو، اس کے لیے اپنے لہو سے آبیاری کرنے والوں کی ایک طویل فہرست ہے۔ جس کا آغاز شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی کے فتویٰ جہاد جاری کرنے سے ہوتا ہے اور اختتام ریشمی رومال تحریک، ڈانڈی مارچ، اسباب بغاوت، تقسیم ہند جیسے دلخراش و دل سوز مراحل پر آکر ہوتا ہے۔
اس پورے عرصے میں نہ جانے کیسی کیسی ہستیوں نے اپنا سب کچھ ملک پر قربان کر دینا گوارا کیا اور ملک کی آزادی اور سلامتی کی خاطر کچھ بھی پیش کرنے سے پس و پیش نہیں ہوئے۔ ان ہی بے شمار ہستیوں میں سے ایک اہم نام مولانا محمد علی جوہر رامپوری کا نام بھی تاریخ میں رقم ہے۔ جنہوں نے وطن عزیز کی آزادی کی خاطر اپنا سب کچھ نچھاور کر کے نمایاں کردار ادا کیا تھا۔
ڈاکٹر شریف قریشی نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جیسے ہمارے دیگر بہت سے علماء کرام اور مسلم مجاہدین آزادی کے نام نفرت و عصبیت کے سبب آج گمنامی کا شکار ہو کر رہ گئے ہیں۔ ویسے ہی رامپور کے اس مایہ ناز سپوت، مجاہد جلیل و بے مثال اور لاجواب قلم کے شہسوار سپاہی کے کردار اور عظمت پر بارہاچشم پوشی کی چادر ڈال کر ان کی تمام تر خدمات جلیلہ اور عظیم قربانیوں کو یکسر نظر انداز کر دیا گیا۔
اور ان کے نام کے تزکرے کو فراموش کر دیا گیا ہے۔ ملک بھر میں رائج تاریخ کی نصابی کتابوں سے ملت کے اس عظیم رہبر، نامور شاعر اور میدان صحافت کے پختہ کار خادم کے ذکر اور ان کے کارہائے نمایا کو رفتہ رفتہ کم ہی نہیں بلکہ منظم طریقہ پر حذف کیا جا رہا ہے۔
کتاب کے مرتب معصوم مرادآبادی نے کہا کہ اردو میں متعدد کتابیں تصنیف ہوئی ہیں لیکن زیادہ تر وہ ریسرچ ورک ہے لیکن یہ کتاب آنکھوں دیکھے مولانا کے حالات پر تصنیف کی گئی ہے۔
رسم اجراء کی تقریب کو خطاب کرتے ہوئے مہمان ذی وقار اور صولت پبلک لائبریری کے صدر سین شین عالم نے کہا کہ مولانا محمد علی جوہر کی شخصیت اور فکر کو اجاگر کرنے والی یہ کافی قیمتی اور اہم کتاب ہے۔ اس کا مطالعہ ضرور کرنا چاہئے۔
مزید پڑھیں:
دیوبند: کورونا ویکسین کے تعلق سے افواہوں کا بازار گرم
اس پروقار تقریب کی نظامت کا فریضہ ڈاکٹر رباب انجم نے اپنے منفرد انداز میں بحسن و خوبی انجام دیا۔