چھتیس گڑھ کو ریاست کا درجہ حاصل ہوئے 20 برس کا عرصہ گزر چکا ہے۔لیکن تب سے اب تک جتنی بھی حکومت برسر اقتدار میں آئی ہیں، سب نے صرف ترقی کا دعوی کیا ۔چاہے وہ بی جے پی کی حکومت ہو یا موجودہ کانگریس کی حکومت سب نے صرف ترقی کا وعدہ کیا۔
کورونا دور میں جہاں محکمہ صحت کی تعریف ہورہی ہے، وہیں کانکیر میں 12 سال کی بچی کے حالت نے حکومت کے تمام دعووں کو غلط ثابت کردیا ہے۔12 سال کی مانکی بیماری کی حالت میں 5 کلومیٹر کا سفر طئے کر علاج کے لیے اسپتال پہنچی۔نہ صرف اتنا ہی بلکہ اس سفر کے درمیان ندی ہونے کی وجہ سے بچی کو قریب ایک گھنٹہ تک شدید دھوپ میں ناؤ کا انتظار بھی کرنا پڑا۔
آلدنڈ گاؤں کی رہنے والی 12 سال کی مانکی طبعیت اچانک دیر رات خراب ہوگئی۔گاؤں میں طبی سہولیات نہیں ہونے کی وجہ سے بچی کے اہل خانہ نے مانکی کو صبح اسپتال میں داخل کرانے کے بارے میں سوچا، لیکن کوئی بھی گاڑی نہیں ہونے کی وجہ سے مانکی کو 5 کلومیٹر پیدل ہی سفر طئے کرنا پڑا۔گاؤں سے اسپتال کے درمیان کٹوری ندی پڑتی ہے، جہاں آج تک پل نہیں بن پایا ہے۔بیماری کی حالت میں مانکی کو شدید دھوپ میں ناؤ کا انتظار کرنا پڑا۔
ناؤ کے آنے بعد ندی کو پار کرکے مانکی بیٹھیا کے ذیلی صحت مرکز پہنچی، جہاں اسے علاج کے لیے داخل کرایا گیا۔
جہاں شہر تیزی سے ترقی کر رہے ہیں۔وہیں ریاست کے متعدد گاؤں آج بھی بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔ ریاست کے وجود میں آنے کے 20 برس بعد بھی بستر ڈویژن کے ایسے متعدد گاؤں ہیں جہاں طبی سہولیات نہیں پہنچ پائی ہے۔حکومت بھلے ہی صحت اور تعلیم گاؤں گاؤں تک پہنچانے کے دعوے کر رہی ہیں، لیکن حقیقت میں آج بھی مانکی جیسے بچیوں کو اسپتال جانے کے لیے کئی میلوں تک پیدل ہی سفر کرنا پڑ رہا ہے۔
آلدنڈ سے چھوٹے بیٹھیا کا فاصلہ 6 کلومیٹر ہے، لیکن یہاں پہنچنے کے لیے 60 کلومیٹر سے بھی زیادہ کا وقت لگتا ہے۔دیہی علاقوں کے قریب جنگلی راستوں سے پیدل سفر کرنے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے۔پھر بھی ناؤ کے سہارے ندی پار کرکے دیہی لوگ جیسے تیسے بیٹھیا پہنچتے ہیں۔