ETV Bharat / bharat

Bhagat Singh Death Anniversary: آزادی کی جد و جہد کی کہانی بھگت سنگھ کے ذکر کے بغیر ادھوری

author img

By

Published : Mar 23, 2022, 3:39 PM IST

Updated : Mar 23, 2022, 5:29 PM IST

آج ہی کے دن 23 مارچ 1931 کو اپنی بہادری سے برطانوی راج کی جڑیں ہلا دینے والے بھگت سنگھ کو 23 سال کی عمر میں پھانسی دے دی گئی تھی۔ تمام آزادی پسندوں نے جدوجہد آزادی میں نمایاں خدمات انجام دیں۔ Shaheed-e-Azam Sardar Bhagat Singh ان میں سے ایک شہید اعظم سردار بھگت سنگھ تھے جنہوں نے آزادی کے لیے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا۔ آئیے آزادی کی جدو جہد میں ان کی شراکت پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔

برطانوی راج کی جڑیں ہلا دینے والے بھگت سنگھ
برطانوی راج کی جڑیں ہلا دینے والے بھگت سنگھ

بھارت کی آزادی کی جد و جہد کی کہانی شہید اعظم سردار بھگت سنگھ کے ذکر کے بغیر ادھوری ہے۔ 23 مارچ 1931 کو محض 23 سال کی میں بھگت سنگھ نے ہنستے ہوئے اپنے دو ساتھیوں سُکھ دیو اور راج گرو کے ساتھ پھانسی کے پھندے کو چوما اور ملک کے لیے قربان ہو گئے۔ جس کے بعد ان کا انقلابی نظریہ ہمیشہ کے لیے امر ہوگیا۔ اگرچہ حکومت ہند نے انہیں آج تک شہید کا درجہ نہیں دیا لیکن کم عمری میں ہی ان کی عظیم قربانی کی وجہ سے بھگت سنگھ کو شہید اعظم کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ Sardar Bhagat Singh Death Anniversary

برطانوی راج کی جڑیں ہلا دینے والے بھگت سنگھ

بھگت سنگھ 28 ستمبر 1907 کو لیال پور میں پیدا ہوئے تھے۔ سیاسی میدان میں سرگرم خاندان میں پیدا ہونے والے بھگت سنگھ سچے محب وطن تھے۔ ان کے دادا ارجن سنگھ ہندو اصلاح پسند تحریک آریہ سماج سے وابستہ تھے جبکہ والد ایس کشن سنگھ اور چچا ایس اجیت سنگھ غدر پارٹی کے رکن تھے جو بھارت کی جدوجہد آزادی میں سرگرم تھی۔

بھگت سنگھ مجاہد آزادی کیسے بنے

آج کی نسل کے لیے یہ جاننا بہت ضروری ہے کہ بھگت سنگھ مجاہد آزادی کیسے بنے جنہوں نے نہ صرف ملک بلکہ بیرون ملک آنے والی نسلوں کو بھی متاثر کیا اور ان کے نظریات آج بھی درست ہیں۔ تین چیزوں نے بھگت سنگھ کو آزادی کے راستے پر چلنے کی ترغیب دی۔ پہلی جلیانوالہ باغ کا قتل عام تھا جس میں ہزاروں نِہتّے لوگ مارے گئے تھے۔ 12 برس کی عمر میں بھگت سنگھ خود وہاں گئے اور وہاں سے مٹی لائے۔ دوسرا، بھگت سنگھ غدر تحریک کے سرگرم نوجوان رہنما کرتار سنگھ سرابھا سے بہت متاثر ہوئے کہ کس طرح ایک 19 سالہ نوجوان بیرون ملک سفر کے باوجود اپنے ہم وطنوں کی فلاح و بہبود کے لیے کام کر رہا ہے۔ تیسری اور سب سے اہم رہنمائی انہیں سری گرو گرنتھ صاحب سے ملی تھی۔

بھگت سنگھ کو شروع سے ہی کتابیں پڑھنے کا شوق تھا اور انہوں نے کتابوں سے سیکھا تھا کہ آزادی کی جنگ کیسے لڑنی ہے۔ سنہ 1921 میں آئرلینڈ کے ڈی ویلرا نے محب وطنوں کی مدد سے ڈومینین کا درجہ حاصل کیا۔ بھگت سنگھ نے جس پہلی کتاب کا ترجمہ کیا اس کا عنوان 'مائی فائٹ فار آئرش فریڈم بائے ڈین برین' تھا۔ انہوں نے اس کتاب کا ہندی میں ترجمہ کیا تاکہ ہر کوئی اس کتاب کو پڑھے اور اس سے رہنمائی حاصل کرے۔ بھگت سنگھ نے خود اس کتاب سے بہت کچھ سیکھا تھا۔

بھگت سنگھ کا ماننا تھا کہ جسم کو مارا جا سکتا ہے لیکن خیالات کو نہیں کیونکہ خیالات امر ہو جاتے ہیں۔ Body Can Be Killed But Not the Ides or Thoughts بھگت سنگھ نے انقلاب زندہ باد کا نعرہ لگاتے ہوئے کہا کہ جب تک بیرونی طاقتیں ملک کو کو لوٹ رہی ہیں تب تک لوگوں کی زندگیوں میں سکون نہیں ہو سکتا۔ بھگت سنگھ انقلاب کے بارے میں بہت اچھا لکھتے تھے۔ بھگت سنگھ کی زندگی کے دو اہم واقعات جنہوں نے ان کی زندگی بدل دی وہ سانڈرز کا قتل اور اسمبلی بم دھماکہ تھا۔

سنہ 1928 میں سائمن کمیشن نامی 7 رکنی پینل بھارت میں آئینی اصلاحات کا جائزہ لینے یعنی بھارتیوں کے لیے برطانوی پالیسیوں کی ترامیم کا جائزہ لینے کے لیے بھارت آیا۔ اس کمیشن کی پورے ملک میں مخالفت ہوئی کیونکہ اس پینل میں ایک بھی بھارتی نہیں تھا۔ بھگت سنگھ اور ان کے ساتھیوں نے لالہ لاجپت رائے کی قیادت میں لاہور میں سائمن کمیشن کو سیاہ جھنڈے دکھائے۔ پولیس نے اس پُرامن احتجاج پر لاٹھی چارج کیا جس کی وجہ سے لالہ لاجپت رائے کی موت ہوگئی تھی۔

بھارت نوجوان سبھا اور سوشلسٹ ریپبلکن آرمی کے نوجوانوں نے لالہ لاجپت رائے کی موت کا ذمہ دار سُپرنٹنڈنٹ آف پولیس اسکاٹ کو ٹھہراتے ہوئے بدلہ لینے کا فیصلہ کیا۔ اسکاٹ کو مارنے کے منصوبہ میں طے پایا تھا کہ جیسے ہی اسکاٹ آفس ختم ہونے کے بعد گھر واپس آئے گا وہ اسے گولی مار دیں گے لیکن اس میں اسکاٹ بچ گیا کیوں کہ وپہ اس دن دفتر نہیں آیا اور اس کی موٹرسائیکل حوالدار سانڈرز نے استعمال کی تھی اور ایسے میں انقلابیوں نے سانڈرز کو قتل کر دیا

بھگت سنگھ کی زندگی کا دوسرا بڑا واقعہ 8 اپریل 1929 کو مرکزی اسمبلی پر بم حملہ تھا۔ عصری تاریخ سے رہنمائی لیتے ہوئے بھگت سنگھ نے پڑھا تھا کہ فرانس کے انقلاب کے دوران حکومتوں کے کانوں تک پہنچنے کے لیے دھماکے کیے گئے تھے۔ اسی لیے بٹوکیشور دت اور بھگت سنگھ نے مرکزی اسمبلی میں بم پھینکنے کا منصوبہ بنایا۔ دونوں انقلابیوں نے اسمبلی کے اندر خالی جگہ پر دو بم اور کتابچے پھینکے جس میں کہا گیا کہ بہری حکومت کو سنانے کے لیے گونج کی ضرورت ہے۔یہ بم ساؤنڈ بم تھے جس سے کوئی جانی نقصان نہیں ہوا لیکن اس نے برطانوی حکومت کی جڑیں ہلا کر رکھ دی۔ بم پھینکنے کے بعد دونوں انقلابی بھاگے نہیں بلکہ ڈٹے رہے اور گرفتاری دے دی۔

اگرچہ بم دھماکے میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا تھا اس لیے مقدمے کی سماعت کے دوران انہیں عمر قید کی سزا سنائی گئی لیکن انگریزوں کا ارادہ تھا کہ بھگت سنگھ کو کسی بھی طریقے سے پھانسی دی جائے اس لیے انہوں نے سانڈرز قتل کیس کی تحقیقات بھی شروع کر دی۔ 7 اکتوبر 1930 کو تمام شواہد کی بنیاد پر ٹریبونل نے بھگت سنگھ، سکھ دیو اور راج گرو کا سانڈرز قتل کیس میں ملوث ہونا ثابت کیا اور انہیں سزائے موت سنائی۔

پھانسی 31 مارچ کو طے کی گئی تھی۔ ان دنوں نوجوان امتحانات میں مصروف تھے کسان فصل کی کٹائی میں مصروف تھے لیکن اس کے باوجود بھگت سنگھ کی پھانسی کی خطے میں بڑے پیمانے پر مخالفت ہوئی لیکن یہ خبر اہل خانہ اور لوگوں تک پہنچی اور 23 تاریخ کی شام کو لاہور جیل کے باہر ایک ہجوم جمع ہوگیا۔ آناً فاناً میں انگریزوں نے تمام پروٹوکول توڑ کر 23 مارچ کی شام کو ہی تینوں انقلابیوں کو پھانسی دے دی اور ان کی لاشیں لواحقین کے حوالے کرنے کی بجائے جیل کی پچھلی دیوار توڑ کر لے گئے اور حسینی والا میں نذر آتش کرکے آدھی جلی لاشوں کو درائے ستلج میں بہا دیا۔

شہید اعظم بھگت سنگھ کو نہ صرف بھارت بلکہ پاکستان میں بھی احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ لاہور میں مقیم بھگت سنگھ میموریل فاؤنڈیشن بھگت سنگھ کو قومی شہید کا درجہ دینے کا مطالبہ کر رہی ہے۔

بھارت کی آزادی کی جد و جہد کی کہانی شہید اعظم سردار بھگت سنگھ کے ذکر کے بغیر ادھوری ہے۔ 23 مارچ 1931 کو محض 23 سال کی میں بھگت سنگھ نے ہنستے ہوئے اپنے دو ساتھیوں سُکھ دیو اور راج گرو کے ساتھ پھانسی کے پھندے کو چوما اور ملک کے لیے قربان ہو گئے۔ جس کے بعد ان کا انقلابی نظریہ ہمیشہ کے لیے امر ہوگیا۔ اگرچہ حکومت ہند نے انہیں آج تک شہید کا درجہ نہیں دیا لیکن کم عمری میں ہی ان کی عظیم قربانی کی وجہ سے بھگت سنگھ کو شہید اعظم کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ Sardar Bhagat Singh Death Anniversary

برطانوی راج کی جڑیں ہلا دینے والے بھگت سنگھ

بھگت سنگھ 28 ستمبر 1907 کو لیال پور میں پیدا ہوئے تھے۔ سیاسی میدان میں سرگرم خاندان میں پیدا ہونے والے بھگت سنگھ سچے محب وطن تھے۔ ان کے دادا ارجن سنگھ ہندو اصلاح پسند تحریک آریہ سماج سے وابستہ تھے جبکہ والد ایس کشن سنگھ اور چچا ایس اجیت سنگھ غدر پارٹی کے رکن تھے جو بھارت کی جدوجہد آزادی میں سرگرم تھی۔

بھگت سنگھ مجاہد آزادی کیسے بنے

آج کی نسل کے لیے یہ جاننا بہت ضروری ہے کہ بھگت سنگھ مجاہد آزادی کیسے بنے جنہوں نے نہ صرف ملک بلکہ بیرون ملک آنے والی نسلوں کو بھی متاثر کیا اور ان کے نظریات آج بھی درست ہیں۔ تین چیزوں نے بھگت سنگھ کو آزادی کے راستے پر چلنے کی ترغیب دی۔ پہلی جلیانوالہ باغ کا قتل عام تھا جس میں ہزاروں نِہتّے لوگ مارے گئے تھے۔ 12 برس کی عمر میں بھگت سنگھ خود وہاں گئے اور وہاں سے مٹی لائے۔ دوسرا، بھگت سنگھ غدر تحریک کے سرگرم نوجوان رہنما کرتار سنگھ سرابھا سے بہت متاثر ہوئے کہ کس طرح ایک 19 سالہ نوجوان بیرون ملک سفر کے باوجود اپنے ہم وطنوں کی فلاح و بہبود کے لیے کام کر رہا ہے۔ تیسری اور سب سے اہم رہنمائی انہیں سری گرو گرنتھ صاحب سے ملی تھی۔

بھگت سنگھ کو شروع سے ہی کتابیں پڑھنے کا شوق تھا اور انہوں نے کتابوں سے سیکھا تھا کہ آزادی کی جنگ کیسے لڑنی ہے۔ سنہ 1921 میں آئرلینڈ کے ڈی ویلرا نے محب وطنوں کی مدد سے ڈومینین کا درجہ حاصل کیا۔ بھگت سنگھ نے جس پہلی کتاب کا ترجمہ کیا اس کا عنوان 'مائی فائٹ فار آئرش فریڈم بائے ڈین برین' تھا۔ انہوں نے اس کتاب کا ہندی میں ترجمہ کیا تاکہ ہر کوئی اس کتاب کو پڑھے اور اس سے رہنمائی حاصل کرے۔ بھگت سنگھ نے خود اس کتاب سے بہت کچھ سیکھا تھا۔

بھگت سنگھ کا ماننا تھا کہ جسم کو مارا جا سکتا ہے لیکن خیالات کو نہیں کیونکہ خیالات امر ہو جاتے ہیں۔ Body Can Be Killed But Not the Ides or Thoughts بھگت سنگھ نے انقلاب زندہ باد کا نعرہ لگاتے ہوئے کہا کہ جب تک بیرونی طاقتیں ملک کو کو لوٹ رہی ہیں تب تک لوگوں کی زندگیوں میں سکون نہیں ہو سکتا۔ بھگت سنگھ انقلاب کے بارے میں بہت اچھا لکھتے تھے۔ بھگت سنگھ کی زندگی کے دو اہم واقعات جنہوں نے ان کی زندگی بدل دی وہ سانڈرز کا قتل اور اسمبلی بم دھماکہ تھا۔

سنہ 1928 میں سائمن کمیشن نامی 7 رکنی پینل بھارت میں آئینی اصلاحات کا جائزہ لینے یعنی بھارتیوں کے لیے برطانوی پالیسیوں کی ترامیم کا جائزہ لینے کے لیے بھارت آیا۔ اس کمیشن کی پورے ملک میں مخالفت ہوئی کیونکہ اس پینل میں ایک بھی بھارتی نہیں تھا۔ بھگت سنگھ اور ان کے ساتھیوں نے لالہ لاجپت رائے کی قیادت میں لاہور میں سائمن کمیشن کو سیاہ جھنڈے دکھائے۔ پولیس نے اس پُرامن احتجاج پر لاٹھی چارج کیا جس کی وجہ سے لالہ لاجپت رائے کی موت ہوگئی تھی۔

بھارت نوجوان سبھا اور سوشلسٹ ریپبلکن آرمی کے نوجوانوں نے لالہ لاجپت رائے کی موت کا ذمہ دار سُپرنٹنڈنٹ آف پولیس اسکاٹ کو ٹھہراتے ہوئے بدلہ لینے کا فیصلہ کیا۔ اسکاٹ کو مارنے کے منصوبہ میں طے پایا تھا کہ جیسے ہی اسکاٹ آفس ختم ہونے کے بعد گھر واپس آئے گا وہ اسے گولی مار دیں گے لیکن اس میں اسکاٹ بچ گیا کیوں کہ وپہ اس دن دفتر نہیں آیا اور اس کی موٹرسائیکل حوالدار سانڈرز نے استعمال کی تھی اور ایسے میں انقلابیوں نے سانڈرز کو قتل کر دیا

بھگت سنگھ کی زندگی کا دوسرا بڑا واقعہ 8 اپریل 1929 کو مرکزی اسمبلی پر بم حملہ تھا۔ عصری تاریخ سے رہنمائی لیتے ہوئے بھگت سنگھ نے پڑھا تھا کہ فرانس کے انقلاب کے دوران حکومتوں کے کانوں تک پہنچنے کے لیے دھماکے کیے گئے تھے۔ اسی لیے بٹوکیشور دت اور بھگت سنگھ نے مرکزی اسمبلی میں بم پھینکنے کا منصوبہ بنایا۔ دونوں انقلابیوں نے اسمبلی کے اندر خالی جگہ پر دو بم اور کتابچے پھینکے جس میں کہا گیا کہ بہری حکومت کو سنانے کے لیے گونج کی ضرورت ہے۔یہ بم ساؤنڈ بم تھے جس سے کوئی جانی نقصان نہیں ہوا لیکن اس نے برطانوی حکومت کی جڑیں ہلا کر رکھ دی۔ بم پھینکنے کے بعد دونوں انقلابی بھاگے نہیں بلکہ ڈٹے رہے اور گرفتاری دے دی۔

اگرچہ بم دھماکے میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا تھا اس لیے مقدمے کی سماعت کے دوران انہیں عمر قید کی سزا سنائی گئی لیکن انگریزوں کا ارادہ تھا کہ بھگت سنگھ کو کسی بھی طریقے سے پھانسی دی جائے اس لیے انہوں نے سانڈرز قتل کیس کی تحقیقات بھی شروع کر دی۔ 7 اکتوبر 1930 کو تمام شواہد کی بنیاد پر ٹریبونل نے بھگت سنگھ، سکھ دیو اور راج گرو کا سانڈرز قتل کیس میں ملوث ہونا ثابت کیا اور انہیں سزائے موت سنائی۔

پھانسی 31 مارچ کو طے کی گئی تھی۔ ان دنوں نوجوان امتحانات میں مصروف تھے کسان فصل کی کٹائی میں مصروف تھے لیکن اس کے باوجود بھگت سنگھ کی پھانسی کی خطے میں بڑے پیمانے پر مخالفت ہوئی لیکن یہ خبر اہل خانہ اور لوگوں تک پہنچی اور 23 تاریخ کی شام کو لاہور جیل کے باہر ایک ہجوم جمع ہوگیا۔ آناً فاناً میں انگریزوں نے تمام پروٹوکول توڑ کر 23 مارچ کی شام کو ہی تینوں انقلابیوں کو پھانسی دے دی اور ان کی لاشیں لواحقین کے حوالے کرنے کی بجائے جیل کی پچھلی دیوار توڑ کر لے گئے اور حسینی والا میں نذر آتش کرکے آدھی جلی لاشوں کو درائے ستلج میں بہا دیا۔

شہید اعظم بھگت سنگھ کو نہ صرف بھارت بلکہ پاکستان میں بھی احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ لاہور میں مقیم بھگت سنگھ میموریل فاؤنڈیشن بھگت سنگھ کو قومی شہید کا درجہ دینے کا مطالبہ کر رہی ہے۔

Last Updated : Mar 23, 2022, 5:29 PM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.