ETV Bharat / bharat

آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر: دو گز زمین بھی نہ ملی کوئے یار میں

جیسا کہ ملک برطانوی حکمرانی سے اپنی آزادی کا 75 واں سال منا رہا ہے۔ ایسے میں ای ٹی وی بھارت ایک خصوصی سیریز میں تاریخی لمحات، شخصیات اور ان کی قربانیوں کو پیش کر رہا ہے جنہوں نے ملک کی طویل جدوجہد آزادی میں کلیدی کردار ادا کیا۔ اس سلسلے میں آج ہم آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کی زندگی اور ان کی جدوجہد کا جائزہ لیں گے۔

author img

By

Published : Sep 12, 2021, 9:05 PM IST

آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر
آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر

یہ کہانی آخری مغل شہنشاہ بہادر شاہ ظفر کی ہے جن کا انتقال برما کی جیل میں ہوا تھا اور انگریزوں نے انہیں خفیہ طور پر دفن کر دیا تھا۔

جیسا کہ بھارت اپنی آزادی کا 75 واں سال منا رہا ہے۔ آئیے ہم ان لوگوں کو یاد کریں جنہوں نے برطانوی راج سے ملک کو آزادی دلانے کے لیے قربانیاں دیں۔

آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر

مغل شہنشاہ بہادر شاہ ظفر کی کہانی بھی 1857 میں ملک کی پہلی جنگ آزادی سے وابستہ ہے۔

بہادر شاہ ظفر ملک کے برائے نام حکمران تھے لیکن انگریزوں سے آزادی حاصل کرنے کی شدید خواہش رکھتے تھے۔ وہ چاہتے تو انگریزوں سے مفاہمت کر کے شاہانہ زندگی گزار سکتے تھے لیکن انہوں نے مشکل راستے کا انتخاب کر کے 1857 میں پہلی جنگ آزادی میں انگریزوں سے لڑنے کا انتخاب کیا۔

انگریز، بہادر شاہ ظفر سے اتنا ڈرتے تھے کہ انہوں نے ان کے بیٹوں کو قتل کر دیا اور اس مغل شہنشاہ کو برما، جِسے اب میانمار کہا جا تا ہے میں قید کر دیا جہاں شدید ذہنی اذیت میں اس آخری مغل بادشاہ کی موت ہوگئی۔

بہادر شاہ ظفر کی پیدائش 24 اکتوبر 1775 کو ہوئی تھی اور جب انہوں نے انگریزوں سے لڑنے والے باغی فوجیوں کی قیادت قبول کی اس وقت ان کی عمر 82 برس تھی۔ ان کے والد شہنشاہ اکبر دوم اور والدہ لال بائی تھیں۔ والد کی وفات کے بعد بہادر شاہ ظفر 18 ستمبر 1837 کو مغل بادشاہ بنے تھے۔ اس وقت تک مغل شہنشاہ برائے نام شہنشاہ تھے۔

میرٹھ کے سپاہیوں نے بغاوت کے بعد بہادر شاہ ظفر کو اپنا لیڈر منتخب کیا اور انہیں تاج پہنایا۔ تاہم انگریزوں کی سفارت کاری کی وجہ سے یہ جنگ جلد ختم ہوگئی اور بہادر شاہ ظفر کو ہمایوں کے مقبرے میں پناہ لینی پڑی جہاں برطانوی افسر ولیم ہُڈسن نے سازش کے تحت انہیں گرفتار کر لیا۔

بہادر شاہ ظفر کے خلاف برطانوی قوانین کے تحت بغاوت اور قتل کے الزامات عائد کئے گئے۔ مقدمہ 27 جنوری 1858 سے 09 مارچ 1858 تک 40 دن تک جاری رہا اور انہیں مجرم قرار دے کر رنگون میں جلاوطن کر دیا گیا۔ مورخین کا کہنا ہے کہ انگریزوں کو خدشہ تھا کہ بہادر شاہ ظفر ملک میں ایک بار پھر بغاوت کا مرکز بن سکتے ہیں۔

جلاوطنی کے دنوں میں ان کے پاس شاعری کے ذریعے اپنے جذبات کا اظہار کرنے کا واحد ذریعہ تھا لیکن انگریزوں نے انہیں جیل میں قلم، چراغ اور یہاں تک کہ کاغذ کے لیے بھی ترسا دیا تھا۔ بہادر شاہ ظفر نے اینٹوں کا استعمال کر کے دیواروں پر اپنی غزلیں لکھیں۔ انہیں اپنے ملک سے گہری محبت تھی۔ ان کی آخری خواہش تھی کہ انہیں مہرولی کے ظفر محل میں دفن کیا جائے لیکن 7 نومبر 1862 کو رنگون کی جیل میں موت کے بعد انہیں ایک گمنام قبر میں دفن کر دیا گیا۔

بہادر شاہ ظفر کی موت کے بعد انگریزوں کو خدشہ تھا کہ اگر ان کی موت کی خبر بھارت میں پھیل گئی تو بغاوت ایک بار پھر بھڑک اٹھے گی۔ اس لیے ان کی تدفین کی تمام رسومات خفیہ طور پر انجام دی گئیں۔

سنہ 1907 میں بہادر شاہ ظفر کی قبر کو نشان زد کیا گیا لیکن 1991 میں کھدائی کے دوران پتہ چلا کہ اصل قبر اس جگہ سے 25 فٹ دور ہے۔ اب لوگ اسے بہادر شاہ ظفر کی درگاہ کہتے ہیں اور بہادر شاہ میوزیم کمیٹی میانمار میں ان سے متعلقہ مقامات کو برقرار رکھتی ہے۔

آج ملک میں بہادر شاہ ظفر کا نام بڑے عزت و احترام کے ساتھ لیا جاتا ہے۔ دہلی میں ان کے نام پر کئی سڑکیں اور پارک ہیں۔ پاکستان کے شہر لاہور میں بھی ایک سڑک ان کے نام سے منسوب ہے جبکہ بنگلہ دیش نے ان کے اعزاز میں ڈھاکہ کے وکٹوریہ پارک کا نام بہادر شاہ ظفر پارک رکھا ہے۔

آخری مغل شہنشاہ کی قربانی کی کہانی اس قیمت کی یاد دہانی ہے جو ہمارے آبا و اجداد نے ملک کو 200 سالہ برطانوی قبضے سے آزادی کے لیے ادا کی تھی۔

یہ کہانی آخری مغل شہنشاہ بہادر شاہ ظفر کی ہے جن کا انتقال برما کی جیل میں ہوا تھا اور انگریزوں نے انہیں خفیہ طور پر دفن کر دیا تھا۔

جیسا کہ بھارت اپنی آزادی کا 75 واں سال منا رہا ہے۔ آئیے ہم ان لوگوں کو یاد کریں جنہوں نے برطانوی راج سے ملک کو آزادی دلانے کے لیے قربانیاں دیں۔

آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر

مغل شہنشاہ بہادر شاہ ظفر کی کہانی بھی 1857 میں ملک کی پہلی جنگ آزادی سے وابستہ ہے۔

بہادر شاہ ظفر ملک کے برائے نام حکمران تھے لیکن انگریزوں سے آزادی حاصل کرنے کی شدید خواہش رکھتے تھے۔ وہ چاہتے تو انگریزوں سے مفاہمت کر کے شاہانہ زندگی گزار سکتے تھے لیکن انہوں نے مشکل راستے کا انتخاب کر کے 1857 میں پہلی جنگ آزادی میں انگریزوں سے لڑنے کا انتخاب کیا۔

انگریز، بہادر شاہ ظفر سے اتنا ڈرتے تھے کہ انہوں نے ان کے بیٹوں کو قتل کر دیا اور اس مغل شہنشاہ کو برما، جِسے اب میانمار کہا جا تا ہے میں قید کر دیا جہاں شدید ذہنی اذیت میں اس آخری مغل بادشاہ کی موت ہوگئی۔

بہادر شاہ ظفر کی پیدائش 24 اکتوبر 1775 کو ہوئی تھی اور جب انہوں نے انگریزوں سے لڑنے والے باغی فوجیوں کی قیادت قبول کی اس وقت ان کی عمر 82 برس تھی۔ ان کے والد شہنشاہ اکبر دوم اور والدہ لال بائی تھیں۔ والد کی وفات کے بعد بہادر شاہ ظفر 18 ستمبر 1837 کو مغل بادشاہ بنے تھے۔ اس وقت تک مغل شہنشاہ برائے نام شہنشاہ تھے۔

میرٹھ کے سپاہیوں نے بغاوت کے بعد بہادر شاہ ظفر کو اپنا لیڈر منتخب کیا اور انہیں تاج پہنایا۔ تاہم انگریزوں کی سفارت کاری کی وجہ سے یہ جنگ جلد ختم ہوگئی اور بہادر شاہ ظفر کو ہمایوں کے مقبرے میں پناہ لینی پڑی جہاں برطانوی افسر ولیم ہُڈسن نے سازش کے تحت انہیں گرفتار کر لیا۔

بہادر شاہ ظفر کے خلاف برطانوی قوانین کے تحت بغاوت اور قتل کے الزامات عائد کئے گئے۔ مقدمہ 27 جنوری 1858 سے 09 مارچ 1858 تک 40 دن تک جاری رہا اور انہیں مجرم قرار دے کر رنگون میں جلاوطن کر دیا گیا۔ مورخین کا کہنا ہے کہ انگریزوں کو خدشہ تھا کہ بہادر شاہ ظفر ملک میں ایک بار پھر بغاوت کا مرکز بن سکتے ہیں۔

جلاوطنی کے دنوں میں ان کے پاس شاعری کے ذریعے اپنے جذبات کا اظہار کرنے کا واحد ذریعہ تھا لیکن انگریزوں نے انہیں جیل میں قلم، چراغ اور یہاں تک کہ کاغذ کے لیے بھی ترسا دیا تھا۔ بہادر شاہ ظفر نے اینٹوں کا استعمال کر کے دیواروں پر اپنی غزلیں لکھیں۔ انہیں اپنے ملک سے گہری محبت تھی۔ ان کی آخری خواہش تھی کہ انہیں مہرولی کے ظفر محل میں دفن کیا جائے لیکن 7 نومبر 1862 کو رنگون کی جیل میں موت کے بعد انہیں ایک گمنام قبر میں دفن کر دیا گیا۔

بہادر شاہ ظفر کی موت کے بعد انگریزوں کو خدشہ تھا کہ اگر ان کی موت کی خبر بھارت میں پھیل گئی تو بغاوت ایک بار پھر بھڑک اٹھے گی۔ اس لیے ان کی تدفین کی تمام رسومات خفیہ طور پر انجام دی گئیں۔

سنہ 1907 میں بہادر شاہ ظفر کی قبر کو نشان زد کیا گیا لیکن 1991 میں کھدائی کے دوران پتہ چلا کہ اصل قبر اس جگہ سے 25 فٹ دور ہے۔ اب لوگ اسے بہادر شاہ ظفر کی درگاہ کہتے ہیں اور بہادر شاہ میوزیم کمیٹی میانمار میں ان سے متعلقہ مقامات کو برقرار رکھتی ہے۔

آج ملک میں بہادر شاہ ظفر کا نام بڑے عزت و احترام کے ساتھ لیا جاتا ہے۔ دہلی میں ان کے نام پر کئی سڑکیں اور پارک ہیں۔ پاکستان کے شہر لاہور میں بھی ایک سڑک ان کے نام سے منسوب ہے جبکہ بنگلہ دیش نے ان کے اعزاز میں ڈھاکہ کے وکٹوریہ پارک کا نام بہادر شاہ ظفر پارک رکھا ہے۔

آخری مغل شہنشاہ کی قربانی کی کہانی اس قیمت کی یاد دہانی ہے جو ہمارے آبا و اجداد نے ملک کو 200 سالہ برطانوی قبضے سے آزادی کے لیے ادا کی تھی۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.