ETV Bharat / bharat

Mirza Ghalib Death Anniversary: اردو کے عظیم شاعر مرزا غالبؔ کی 153ویں برسی

اردو زبان و ادب کے سب سے بڑے اور عظیم شاعر کہے جانے والے مرزا اسد اللہ خاں غالب کا آج 153ویں برسی ہے، جہاں اٹھارھویں صدی میر کی صدی کہی جاتی ہے تو وہیں انیسویں صدی غالب اور بیسویں صدی علامہ اقبال کی کہی جاتی ہے۔ The Greatest Poet of Urdu Language and Literature

Anniversary of the great poet Mirza Ghalib
اردو زبان و ادب کے سب سے بڑے اور عظیم شاعر مرزا غالبؔ کی 153ویں برسی
author img

By

Published : Feb 15, 2022, 12:47 PM IST

اٹھارھویں صدی کے اواخر میں غالب کی پیدائش 27 دسمبر 1797 میں عبداللہ بیگ کے یہاں ہوتی ہے۔ پانچ برس کی عمر میں والد کا سایہ سر سے اٹھ جاتا ہے۔ چچا نصراللہ بیگ نے ان کی پرورش کی ذمہ داری سنبھالی، لیکن نو برس کی عمر میں ان کی بھی وفات ہو جاتی ہے۔

13 برس کی عمر میں نواب احمد بخش خاں کے چھوٹے بھائی مرزا الٰہی بخش خاں معروف کی بیٹی امراؤ بیگم سے غالب ازدواجی زندگی میں منسلک ہو جاتے ہیں۔ اسی دوران غالب دہلی کوچ کر جاتے اور وہیں کے ہمیشہ ہو کر رہ جاتے ہیں۔

شادی کے بعد مرزا کے اخراجات بڑھ جاتے ہیں۔ اس کے بعد وہ برابر قرض میں ڈوبتے چلے جاتے ہیں۔ چچا کی وفات کے بعد نواب احمد الہی بخش خاں نے غالب کے خاندان کا وظیفہ انگریزی حکومت سے مقرر کرا دیا تھا۔ لیکن یہ وظیفہ زیادہ دن نہ مل سکا۔ جس کے لیے غالب نے 1827 میں کلکتہ کا سفر بھی کیا۔ اس دوران وہ لکھنؤ اور بنارس میں چند ماہ رکے بھی۔

یہ بھی پڑھیں:

علامہ اقبالؒ جن کے تصورات و نظریات نے چھوڑے انمٹ نقوش

مولانا الطاف حسین حالی یادگار غالب میں سفر کلکتہ کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ 'ظاہرا مرزا نے کوئی لمبا سفر کلکتہ کے سوا نہیں کیا۔ اسی سفر کی آمد و رفت میں وہ چند ماہ لکھنؤ اور بنارس میں بھی ٹھہرے تھے'۔

پینشن کے لیے کیا گیا کلکتہ کا سفر کامیاب ثابت نہ ہوا، غالب کو وہاں بھی مایوسی حاصل ہوئی۔ جس کے بعد مرزا نے ولایت میں اپیل کی، مگر وہاں بھی کچھ نہ ہوا۔

عمر کے آخری ایام میں غالب کو کافی مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، جس کے بعد غالب نے قلعہ معلیٰ میں مجبور ہو کر ملازمت اختیار کرلی۔ 1850 میں بہادر شاہ ظفر نے مرزا غالب کو نجم الدولہ، دبیر الملک اور نظام جنگ کے خطابات عطا کیے اور خاندان تیموری کی تاریخ لکھنے پر مامور کیا جس کا 50 روپیے ماہوار مقرر کیا گیا۔

غالب نے اپنی نظروں کے سامنے دہلی کو اجڑتے ہوئے دیکھا تھا، 1857 کی جنگ کے حالات غالب نے اپنی ڈائری 'دستنبو' میں درج کیے۔

اردو کا یہ عظیم شاعر 15 فروری 1869 میں اس دنیا کو پرانی دہلی کی گلی قاسم جان، محلہ بلی ماراں میں خیرآباد کہہ دیتا ہے۔غالب نے اردو غزل کو حیات دوام بخشا ہے۔ جب تک اردو زندہ ہے غالب یاد کیے جاتے رہیں گے۔

مرزا اسداللہ خان غالبؔ کے ویسے تو سینکڑوں اشعار ہیں جنہیں ہر خاص موقع پر سُنا اور سنایا جاتا ہے۔ لیکن کچھ اشعار ایسے زبان زد عام و خاص ہیں کہ وہ اکثر سنے جاتے ہیں۔ ایسے ہی چند اشعار ہم خصوصی طور پر ای ٹی وی بھارت کے قارئین کی نذر کر رہے ہیں۔

ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے

بہت نکلے مرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے

--------------------

رگوں میں دوڑتے پھرنے کے ہم نہیں قائل

جب آنکھ ہی سے نہ ٹپکا تو پھر لہو کیا ہے

--------------------

ان کے دیکھے سے جو آ جاتی ہے منہ پر رونق

وہ سمجھتے ہیں کہ بیمار کا حال اچھا ہے

-------------

نہ تھا کچھ تو خدا تھا کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا

ڈبویا مجھ کو ہونے نے نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا

-------------

ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت لیکن

دل کے خوش رکھنے کو غالبؔ یہ خیال اچھا ہے

-------------

آہ کو چاہیے اک عمر اثر ہوتے تک

کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہوتے تک

----------

یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصال یار ہوتا

اگر اور جیتے رہتے یہی انتظار ہوتا

----------------

پوچھتے ہیں وہ کہ غالب کون ہے

کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا

-----------------

مرتے ہیں آرزو میں مرنے کی

موت آتی ہے پر نہیں آتی

---------------

اپنی گلی میں مجھ کو نہ کر دفن بعدِ قتل

میرے پتے سے خلق کو کیوں تیرا گھر ملے

اٹھارھویں صدی کے اواخر میں غالب کی پیدائش 27 دسمبر 1797 میں عبداللہ بیگ کے یہاں ہوتی ہے۔ پانچ برس کی عمر میں والد کا سایہ سر سے اٹھ جاتا ہے۔ چچا نصراللہ بیگ نے ان کی پرورش کی ذمہ داری سنبھالی، لیکن نو برس کی عمر میں ان کی بھی وفات ہو جاتی ہے۔

13 برس کی عمر میں نواب احمد بخش خاں کے چھوٹے بھائی مرزا الٰہی بخش خاں معروف کی بیٹی امراؤ بیگم سے غالب ازدواجی زندگی میں منسلک ہو جاتے ہیں۔ اسی دوران غالب دہلی کوچ کر جاتے اور وہیں کے ہمیشہ ہو کر رہ جاتے ہیں۔

شادی کے بعد مرزا کے اخراجات بڑھ جاتے ہیں۔ اس کے بعد وہ برابر قرض میں ڈوبتے چلے جاتے ہیں۔ چچا کی وفات کے بعد نواب احمد الہی بخش خاں نے غالب کے خاندان کا وظیفہ انگریزی حکومت سے مقرر کرا دیا تھا۔ لیکن یہ وظیفہ زیادہ دن نہ مل سکا۔ جس کے لیے غالب نے 1827 میں کلکتہ کا سفر بھی کیا۔ اس دوران وہ لکھنؤ اور بنارس میں چند ماہ رکے بھی۔

یہ بھی پڑھیں:

علامہ اقبالؒ جن کے تصورات و نظریات نے چھوڑے انمٹ نقوش

مولانا الطاف حسین حالی یادگار غالب میں سفر کلکتہ کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ 'ظاہرا مرزا نے کوئی لمبا سفر کلکتہ کے سوا نہیں کیا۔ اسی سفر کی آمد و رفت میں وہ چند ماہ لکھنؤ اور بنارس میں بھی ٹھہرے تھے'۔

پینشن کے لیے کیا گیا کلکتہ کا سفر کامیاب ثابت نہ ہوا، غالب کو وہاں بھی مایوسی حاصل ہوئی۔ جس کے بعد مرزا نے ولایت میں اپیل کی، مگر وہاں بھی کچھ نہ ہوا۔

عمر کے آخری ایام میں غالب کو کافی مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، جس کے بعد غالب نے قلعہ معلیٰ میں مجبور ہو کر ملازمت اختیار کرلی۔ 1850 میں بہادر شاہ ظفر نے مرزا غالب کو نجم الدولہ، دبیر الملک اور نظام جنگ کے خطابات عطا کیے اور خاندان تیموری کی تاریخ لکھنے پر مامور کیا جس کا 50 روپیے ماہوار مقرر کیا گیا۔

غالب نے اپنی نظروں کے سامنے دہلی کو اجڑتے ہوئے دیکھا تھا، 1857 کی جنگ کے حالات غالب نے اپنی ڈائری 'دستنبو' میں درج کیے۔

اردو کا یہ عظیم شاعر 15 فروری 1869 میں اس دنیا کو پرانی دہلی کی گلی قاسم جان، محلہ بلی ماراں میں خیرآباد کہہ دیتا ہے۔غالب نے اردو غزل کو حیات دوام بخشا ہے۔ جب تک اردو زندہ ہے غالب یاد کیے جاتے رہیں گے۔

مرزا اسداللہ خان غالبؔ کے ویسے تو سینکڑوں اشعار ہیں جنہیں ہر خاص موقع پر سُنا اور سنایا جاتا ہے۔ لیکن کچھ اشعار ایسے زبان زد عام و خاص ہیں کہ وہ اکثر سنے جاتے ہیں۔ ایسے ہی چند اشعار ہم خصوصی طور پر ای ٹی وی بھارت کے قارئین کی نذر کر رہے ہیں۔

ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے

بہت نکلے مرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے

--------------------

رگوں میں دوڑتے پھرنے کے ہم نہیں قائل

جب آنکھ ہی سے نہ ٹپکا تو پھر لہو کیا ہے

--------------------

ان کے دیکھے سے جو آ جاتی ہے منہ پر رونق

وہ سمجھتے ہیں کہ بیمار کا حال اچھا ہے

-------------

نہ تھا کچھ تو خدا تھا کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا

ڈبویا مجھ کو ہونے نے نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا

-------------

ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت لیکن

دل کے خوش رکھنے کو غالبؔ یہ خیال اچھا ہے

-------------

آہ کو چاہیے اک عمر اثر ہوتے تک

کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہوتے تک

----------

یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصال یار ہوتا

اگر اور جیتے رہتے یہی انتظار ہوتا

----------------

پوچھتے ہیں وہ کہ غالب کون ہے

کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا

-----------------

مرتے ہیں آرزو میں مرنے کی

موت آتی ہے پر نہیں آتی

---------------

اپنی گلی میں مجھ کو نہ کر دفن بعدِ قتل

میرے پتے سے خلق کو کیوں تیرا گھر ملے

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.