ETV Bharat / bharat

Goat Farming Project اے ایم یو پروفیسر کو بکری پالن سے متعلق پروجیکٹ ملا

author img

By

Published : Apr 6, 2023, 3:56 PM IST

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کے پروفیسر نظام الدین کو حکومت کی جانب سے ضلع علی گڑھ سمیت ملک میں بکریوں کی تعداد میں ہو رہی کمی اور بکری پالن کو بڑھاوا دینے سے متعلق دو سال کا ایک پروجیکٹ ملا ہے، جس کے لئے دس لاکھ روپے بھی گرانٹ کئے گئے ہیں۔

اے ایم یو پروفیسر کو بکری پالن سے متعلق پروجیکٹ ملا
اے ایم یو پروفیسر کو بکری پالن سے متعلق پروجیکٹ ملا

اے ایم یو پروفیسر کو بکری پالن سے متعلق پروجیکٹ ملا

علی گڑھ: اتر پردیش کے علی گڑھ ضلع میں بکریوں کی تعداد میں زبردست کمی آئی ہے۔ ضلع میں تقریباً 36 ہزار بکرے اور بکریاں دوسرے جانوروں کے بنسبت کم پائے گئے ہیں، جس کی وجہ جاننے کے لیے انڈین کونسل آف سوشل سائنس ریسرچ، نئی دہلی نے اے ایم یو کے شعبہ جغرافیہ کے پروفیسر نظام الدین کو ایک پروجیکٹ کی شکل میں ذمہ داری دی ہے۔ پروجیکٹ کی رپورٹ 2 سال کے اندر پیش کرنی ہوگی، جس کے لیے انہیں انڈین کونسل آف سوشل سائنس ریسرچ، نئی دہلی سے 10 لاکھ روپے بھی گرانٹ کئے گئے ہیں۔

پروفیسر نظام الدین خان نے ای ٹی وی بھارت سے خصوصی گفتگو میں بتایا کہ پروجیکٹ میں مطالعہ کیا جائےگا کہ ضلع علی گڑھ میں بکری کی تعداد میں کمی یا اضافہ ہو رہا ہے اور ساتھ ہی پکڑی پالن کا عوام کی زندگی سے کیا تعلق ہے۔ علی گڑھ سمیت ملک میں ابھی تک روایتی بکری پالن کی جاتی ہے، گھروں میں خواتین بکریاں پالتی ہے۔ جن کی فروخت سے ان کی آمدنی ہوجاتی ہے۔

نظام الدین نے مزید بتایا سروے کے دوران کچھ لوگوں نے بکری سے متعلق سے اس کی اہمیت کو بتایا، کچھ لوگوں نے بتایا کہ اے ٹی ایم آف پور ہے اور یہ غریبی کے لئے انشورنس بھی ہے۔ بکری پالن کے کاروبار میں ابتدائی لاگت کم ہے اور ان کی رہائش اور انتظام میں بھی کم خرچ ہے۔ بکری پالن کا کاروبار چھوٹے، محدود اور بے زمین کسانوں کے لئے ایک بہتر آپشن ہے۔ اس کاروبار میں کم جگہ، کم خرچ اور محدود دیکھ بھال کر کے بھی منافع کمایا جاسکتا ہے۔

اس وقت بکرے کھانے والے لوگوں کی تعداد بڑھ رہی ہے، جس کی وجہ سے بکریوں کی تعداد میں کمی آرہی ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ ملک کے اندر خاص کر علی گڑھ ضلع میں بکریوں کی پرورش روایتی طریقے سے ہوتی ہے۔ گھروں میں دو چار بکریاں پالی جارہی ہیں۔ خواتین اسے زیادہ پسند کرتی ہیں۔ چھوٹے کسان ہیں یا بہت غریب لوگ خاص طور پر اپنے گھروں میں کچھ آمدنی کے لیے بکریاں پالتے ہیں۔ کیونکہ بکریاں پالنے میں زیادہ خرچہ نہیں ہوتا اور وہ ایک سال میں 4 سے 6 بچے پیدا کرتے ہیں۔ جس کی وجہ سے 40 سے 50 ہزار روپے کی آمدنی ہوتی ہے۔

شعبہ جغرافیہ کے رسرچ اسکالرز محمد فیروز نے بتایا کہ پروفیسر نظام الدین گزشتہ تیس سالوں میں اب تک حکومت کے آٹھ پروجیکٹس کر چکے ہیں اور امید ظاہر کی کہ بکری پالن سے متعلق ایک بہترین رپورٹ حکومت کو پیش کریں گے، جس سے بکری پالن کرنے والوں کو بھی فائدہ ہوگا اور بکری کی تعداد میں بھی اضافہ ہوگا۔ مختصرا یہ کہ بکری کے گوشت اور خال کی ڈیمانڈ میں اضافہ کے مقابلے بکری پالن کم ہو رہا ہے جس کے سبب بکری کی تعداد میں کمی ہو رہی ہے کیونکہ زیادہ طر لوگ صرف روایتی بکری پالن کرتے ہے۔

یہ بھی پڑھیں: Bakra Bazaar in Delhi Jama Masjid: دہلی جامع مسجد کا بکرا بازار، تاجروں کا منتظر

روایتی بکری پالن کے ساتھ پیشہ وارانہ بکری پالن اور اس کے فائدے سے متعلق بیداری پیدا کرنا ہے تاکہ بڑے پیمانے پر بکری پالن ہوسکے جس عوام کو روزگار بھی ملے اور بکری کی کمی کو بھی دور کیا جا سکے۔ پروفیسر نظام الدین پروجیکٹ میں بکریوں کی تعداد میں کمی کو دور کرنے کے لئے بکری پالن سے متعلق مطالعہ کرکے پروجیکٹ کی رپورٹ 2 سال کے اندر انڈین کونسل آف سوشل سائنس ریسرچ کو پیش کریں گے، جس سے بکری پالن کو بڑھاوا ملےگا۔

اے ایم یو پروفیسر کو بکری پالن سے متعلق پروجیکٹ ملا

علی گڑھ: اتر پردیش کے علی گڑھ ضلع میں بکریوں کی تعداد میں زبردست کمی آئی ہے۔ ضلع میں تقریباً 36 ہزار بکرے اور بکریاں دوسرے جانوروں کے بنسبت کم پائے گئے ہیں، جس کی وجہ جاننے کے لیے انڈین کونسل آف سوشل سائنس ریسرچ، نئی دہلی نے اے ایم یو کے شعبہ جغرافیہ کے پروفیسر نظام الدین کو ایک پروجیکٹ کی شکل میں ذمہ داری دی ہے۔ پروجیکٹ کی رپورٹ 2 سال کے اندر پیش کرنی ہوگی، جس کے لیے انہیں انڈین کونسل آف سوشل سائنس ریسرچ، نئی دہلی سے 10 لاکھ روپے بھی گرانٹ کئے گئے ہیں۔

پروفیسر نظام الدین خان نے ای ٹی وی بھارت سے خصوصی گفتگو میں بتایا کہ پروجیکٹ میں مطالعہ کیا جائےگا کہ ضلع علی گڑھ میں بکری کی تعداد میں کمی یا اضافہ ہو رہا ہے اور ساتھ ہی پکڑی پالن کا عوام کی زندگی سے کیا تعلق ہے۔ علی گڑھ سمیت ملک میں ابھی تک روایتی بکری پالن کی جاتی ہے، گھروں میں خواتین بکریاں پالتی ہے۔ جن کی فروخت سے ان کی آمدنی ہوجاتی ہے۔

نظام الدین نے مزید بتایا سروے کے دوران کچھ لوگوں نے بکری سے متعلق سے اس کی اہمیت کو بتایا، کچھ لوگوں نے بتایا کہ اے ٹی ایم آف پور ہے اور یہ غریبی کے لئے انشورنس بھی ہے۔ بکری پالن کے کاروبار میں ابتدائی لاگت کم ہے اور ان کی رہائش اور انتظام میں بھی کم خرچ ہے۔ بکری پالن کا کاروبار چھوٹے، محدود اور بے زمین کسانوں کے لئے ایک بہتر آپشن ہے۔ اس کاروبار میں کم جگہ، کم خرچ اور محدود دیکھ بھال کر کے بھی منافع کمایا جاسکتا ہے۔

اس وقت بکرے کھانے والے لوگوں کی تعداد بڑھ رہی ہے، جس کی وجہ سے بکریوں کی تعداد میں کمی آرہی ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ ملک کے اندر خاص کر علی گڑھ ضلع میں بکریوں کی پرورش روایتی طریقے سے ہوتی ہے۔ گھروں میں دو چار بکریاں پالی جارہی ہیں۔ خواتین اسے زیادہ پسند کرتی ہیں۔ چھوٹے کسان ہیں یا بہت غریب لوگ خاص طور پر اپنے گھروں میں کچھ آمدنی کے لیے بکریاں پالتے ہیں۔ کیونکہ بکریاں پالنے میں زیادہ خرچہ نہیں ہوتا اور وہ ایک سال میں 4 سے 6 بچے پیدا کرتے ہیں۔ جس کی وجہ سے 40 سے 50 ہزار روپے کی آمدنی ہوتی ہے۔

شعبہ جغرافیہ کے رسرچ اسکالرز محمد فیروز نے بتایا کہ پروفیسر نظام الدین گزشتہ تیس سالوں میں اب تک حکومت کے آٹھ پروجیکٹس کر چکے ہیں اور امید ظاہر کی کہ بکری پالن سے متعلق ایک بہترین رپورٹ حکومت کو پیش کریں گے، جس سے بکری پالن کرنے والوں کو بھی فائدہ ہوگا اور بکری کی تعداد میں بھی اضافہ ہوگا۔ مختصرا یہ کہ بکری کے گوشت اور خال کی ڈیمانڈ میں اضافہ کے مقابلے بکری پالن کم ہو رہا ہے جس کے سبب بکری کی تعداد میں کمی ہو رہی ہے کیونکہ زیادہ طر لوگ صرف روایتی بکری پالن کرتے ہے۔

یہ بھی پڑھیں: Bakra Bazaar in Delhi Jama Masjid: دہلی جامع مسجد کا بکرا بازار، تاجروں کا منتظر

روایتی بکری پالن کے ساتھ پیشہ وارانہ بکری پالن اور اس کے فائدے سے متعلق بیداری پیدا کرنا ہے تاکہ بڑے پیمانے پر بکری پالن ہوسکے جس عوام کو روزگار بھی ملے اور بکری کی کمی کو بھی دور کیا جا سکے۔ پروفیسر نظام الدین پروجیکٹ میں بکریوں کی تعداد میں کمی کو دور کرنے کے لئے بکری پالن سے متعلق مطالعہ کرکے پروجیکٹ کی رپورٹ 2 سال کے اندر انڈین کونسل آف سوشل سائنس ریسرچ کو پیش کریں گے، جس سے بکری پالن کو بڑھاوا ملےگا۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.