ETV Bharat / bharat

الہ آباد ہائی کورٹ نے مذہب تبدیلی آرڈیننس کو چیلنج کرنے والی تمام درخواستیں مسترد کی - لو جہاد کے خلاف قانون

الہ آباد ہائی کورٹ نے یوپی میں مذہب تبدیلی آرڈیننس کو چیلنج کرنے والی تمام درخواستیں خارج کردی ہیں۔ عدالت نے کہا ہے کہ آرڈیننس کے قانون بن جانے سے اب ان درخواستوں کا کوئی جواز نہیں ہے۔

allahabad high court
الہ آباد ہائی کورٹ
author img

By

Published : Jun 23, 2021, 1:07 PM IST

الہ آباد ہائی کورٹ نے یوپی میں مذہب تبدیلی آرڈیننس کو چیلنج کرنے والی تمام درخواستیں خارج کردی ہیں۔ ہائی کورٹ نے ان درخواستوں کو اس بنیاد پر خارج کردیا کہ آرڈیننس اب قانون بن چکا ہے۔

عدالت نے کہا کہ آرڈیننس کے ایکٹ بن جانے کے بعد اب اس کو چیلنج کرنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ عدالت نے مذہب تبدیلی قانون کو چیلنج کرنے والی درخواست پر ریاستی حکومت سے جواب طلب کیا ہے۔ اس معاملے میں اگلی سماعت 2 اگست کو ہوگی۔ جسٹس ایم این بھنڈاری اور جسٹس اجے تیاگی پر مشتمل ڈویژن بنچ نے یہ حکم دیا۔

ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل منیش گوئل نے حکومت کی جانب سے عدالت میں پیش ہوئے تھے۔ مذہب تبدیلی آرڈیننس کو چار الگ الگ درخواستوں کے ذریعہ چیلنج کیا گیا تھا۔

واضح رہے کہ گزشتہ سال اتر پردیش میں ’لو جہاد‘ کے خلاف قانون بنایا گیا تھا۔ ریاست کی یوگی حکومت نے 24 نومبر کو یہ آرڈیننس منظور کیا تھا۔ اس کے تحت قصوروار شخص کو 10 سال تک قید کی سزا ہو سکتی ہے۔ اس آرڈیننس کے تحت خاتون صرف شادی کے لیے ہی مذہب تبدیل کرتی ہے تو اس کی شادی کو صفر قرار دیا جائے گا اور جو شادی کے بعد مذہب تبدیل کرنا چاہتی ہیں انھیں اس کے لیے ضلع مجسٹریٹ کے پاس درخواست دینی ہوگی۔

اس قانون کے مطابق درخواست ملنے پر پولس جانچ کرے گی کہ کہیں یہ مذہب تبدیلی زبردستی، دھوکے سے یا لالچ میں تو نہیں کروائی جا رہی ہے۔ جانچ میں ایسی شکایت نہیں ملنے پر انتظامیہ مذہب تبدیلی کی اجازت دے گی۔

دراصل اسٹیٹ لاء کمیشن نے غیر قانونی مذہب تبدیلی کے موضوع پر ایک مطالعہ کرنے کے بعد نومبر 2019 میں وزیراعلیٰ یوگی کو رپورٹ پیش کی تھی۔ رپورٹ میں مجوزہ ایکٹ کا مسودہ بھی منسلک کیا گیا تھا۔ مجوزہ ایکٹ میں یہ فراہم کیا گیا تھا کہ اگر کسی بھی شخص کو لالچ دے کر ، کسی سازش کے تحت، اچھی تعلیم کی یقین دہانی کر کے، خوف سے یا کسی اور وجہ سے کسی بھی شخص کا مذہب تبدیل کیا گیا ہے تو یہ اس قانون کے خلاف ہوگا۔اس میں سازش کرنے والے کے خلاف سزا کی بھی تجویز کی گئی ہے۔

مزید پڑھیں:

'لوجہاد کے بجائے روزگار کے لیے قانون بنایا جائے'

'تبدیلیء مذہب قانون بنانے کا مقصد مسلمانوں کو پریشان کرنا ہے'

تبدیلی مذہب کیس: عمر گوتم اور مولانا جہانگیر قاسمی 7 دنوں کی پولیس تحویل میں

اس کے بعد 24 فروری 2021 کو اترپردیش اسمبلی میں اس بل کو پاس کردیا گیا۔ پارلیمانی امور کے وزیر سریش کھنہ نے اس موقع پر کہا تھا کہ اس قانون کے ذریعے مذہب تبدیل کرکے جعلی شادی کرنے پر سزا کی فراہمی کا بندوبست کیا گیا ہے۔اسمبلی میں انہوں نے بتایا کہ اس طرح کی دھوکہ دہی کا ارتکاب کرنے پر کم سے کم تین سال اور زیادہ سے زیادہ 10 سال قید کی سزا ہوگی۔ رضاکارانہ طور پر تبدیل ہونے والوں کو دو ماہ قبل نوٹس دینا پڑے گا۔

اس کے بعد گورنر آنندی بین پٹیل نے اس آرڈیننس کو گزشتہ 4 مارچ کو ہی منظوری دے دی تھی اور اس سلسلے میں نوٹیفکیشن بھی جاری کر دیا گیا ہے۔

قابل غور بات یہ ہے کہ مذہب تبدیلی آرڈیننس پاس ہونے کے بعد ’لو جہاد‘ کے نام پر ریاست میں بے شمار کیس درج ہوئے اور ان میں سے بیشتر معاملوں میں مسلم نوجوانوں کو نشانہ بنایا گیا۔

کئی معاملوں میں عدالت نے پولیس کی کاروائی کو غلط بھی ٹھہرایا اور گرفتار مسلم نوجوانوں کی رہائی کا حکم صادر کیا۔ مسلم طبقہ مذہب تبدیلی آرڈیننس (جو اب قانون بن گیا ہے) کو ہراسانی کا ایک ذریعہ قرار دیتا رہا ہے اور کئی مسلم لیڈروں نے یہ کہا بھی ہے کہ بی جے پی حکومت صرف ایک طبقہ کو نشانہ بنانے کی کوشش کر رہی ہے۔

الہ آباد ہائی کورٹ نے یوپی میں مذہب تبدیلی آرڈیننس کو چیلنج کرنے والی تمام درخواستیں خارج کردی ہیں۔ ہائی کورٹ نے ان درخواستوں کو اس بنیاد پر خارج کردیا کہ آرڈیننس اب قانون بن چکا ہے۔

عدالت نے کہا کہ آرڈیننس کے ایکٹ بن جانے کے بعد اب اس کو چیلنج کرنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ عدالت نے مذہب تبدیلی قانون کو چیلنج کرنے والی درخواست پر ریاستی حکومت سے جواب طلب کیا ہے۔ اس معاملے میں اگلی سماعت 2 اگست کو ہوگی۔ جسٹس ایم این بھنڈاری اور جسٹس اجے تیاگی پر مشتمل ڈویژن بنچ نے یہ حکم دیا۔

ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل منیش گوئل نے حکومت کی جانب سے عدالت میں پیش ہوئے تھے۔ مذہب تبدیلی آرڈیننس کو چار الگ الگ درخواستوں کے ذریعہ چیلنج کیا گیا تھا۔

واضح رہے کہ گزشتہ سال اتر پردیش میں ’لو جہاد‘ کے خلاف قانون بنایا گیا تھا۔ ریاست کی یوگی حکومت نے 24 نومبر کو یہ آرڈیننس منظور کیا تھا۔ اس کے تحت قصوروار شخص کو 10 سال تک قید کی سزا ہو سکتی ہے۔ اس آرڈیننس کے تحت خاتون صرف شادی کے لیے ہی مذہب تبدیل کرتی ہے تو اس کی شادی کو صفر قرار دیا جائے گا اور جو شادی کے بعد مذہب تبدیل کرنا چاہتی ہیں انھیں اس کے لیے ضلع مجسٹریٹ کے پاس درخواست دینی ہوگی۔

اس قانون کے مطابق درخواست ملنے پر پولس جانچ کرے گی کہ کہیں یہ مذہب تبدیلی زبردستی، دھوکے سے یا لالچ میں تو نہیں کروائی جا رہی ہے۔ جانچ میں ایسی شکایت نہیں ملنے پر انتظامیہ مذہب تبدیلی کی اجازت دے گی۔

دراصل اسٹیٹ لاء کمیشن نے غیر قانونی مذہب تبدیلی کے موضوع پر ایک مطالعہ کرنے کے بعد نومبر 2019 میں وزیراعلیٰ یوگی کو رپورٹ پیش کی تھی۔ رپورٹ میں مجوزہ ایکٹ کا مسودہ بھی منسلک کیا گیا تھا۔ مجوزہ ایکٹ میں یہ فراہم کیا گیا تھا کہ اگر کسی بھی شخص کو لالچ دے کر ، کسی سازش کے تحت، اچھی تعلیم کی یقین دہانی کر کے، خوف سے یا کسی اور وجہ سے کسی بھی شخص کا مذہب تبدیل کیا گیا ہے تو یہ اس قانون کے خلاف ہوگا۔اس میں سازش کرنے والے کے خلاف سزا کی بھی تجویز کی گئی ہے۔

مزید پڑھیں:

'لوجہاد کے بجائے روزگار کے لیے قانون بنایا جائے'

'تبدیلیء مذہب قانون بنانے کا مقصد مسلمانوں کو پریشان کرنا ہے'

تبدیلی مذہب کیس: عمر گوتم اور مولانا جہانگیر قاسمی 7 دنوں کی پولیس تحویل میں

اس کے بعد 24 فروری 2021 کو اترپردیش اسمبلی میں اس بل کو پاس کردیا گیا۔ پارلیمانی امور کے وزیر سریش کھنہ نے اس موقع پر کہا تھا کہ اس قانون کے ذریعے مذہب تبدیل کرکے جعلی شادی کرنے پر سزا کی فراہمی کا بندوبست کیا گیا ہے۔اسمبلی میں انہوں نے بتایا کہ اس طرح کی دھوکہ دہی کا ارتکاب کرنے پر کم سے کم تین سال اور زیادہ سے زیادہ 10 سال قید کی سزا ہوگی۔ رضاکارانہ طور پر تبدیل ہونے والوں کو دو ماہ قبل نوٹس دینا پڑے گا۔

اس کے بعد گورنر آنندی بین پٹیل نے اس آرڈیننس کو گزشتہ 4 مارچ کو ہی منظوری دے دی تھی اور اس سلسلے میں نوٹیفکیشن بھی جاری کر دیا گیا ہے۔

قابل غور بات یہ ہے کہ مذہب تبدیلی آرڈیننس پاس ہونے کے بعد ’لو جہاد‘ کے نام پر ریاست میں بے شمار کیس درج ہوئے اور ان میں سے بیشتر معاملوں میں مسلم نوجوانوں کو نشانہ بنایا گیا۔

کئی معاملوں میں عدالت نے پولیس کی کاروائی کو غلط بھی ٹھہرایا اور گرفتار مسلم نوجوانوں کی رہائی کا حکم صادر کیا۔ مسلم طبقہ مذہب تبدیلی آرڈیننس (جو اب قانون بن گیا ہے) کو ہراسانی کا ایک ذریعہ قرار دیتا رہا ہے اور کئی مسلم لیڈروں نے یہ کہا بھی ہے کہ بی جے پی حکومت صرف ایک طبقہ کو نشانہ بنانے کی کوشش کر رہی ہے۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.