ممبئی: ریاست مہاراشٹر کے دارالحکومت ممبئی میں آل انڈیا علماء بورڈ کے کارکنان و ذمہ داران نے ایک پریس کانفرنس میں افغانستان میں خواتین کی تعلیم پر عائد پابندی کی مذمت کی۔ اس موقعے پر آل انڈیا علماء بورڈ کے ذمہ داران نے کہا کہ طالبان حکومت کی طرف سے افغانستان میں خواتین کی اعلیٰ تعلیم پر پابندی عائد کی گئی ہے۔ طالبان حکومت کا یہ فیصلہ یقینا افسوسناک ہے۔ اس طرح کی پابندی خواتین کی حوصلہ شکنی اور حق تلفی کے مترادف ہے کیونکہ تعلیم ہر انسان کا خواہ وہ مرد ہوں یا عورت، سب کا بنیادی حق ہے اور ہر زمانے میں اس کے حصول کیلئے مستقل انتظامات کیے گئے ہیں۔ عہد نبوی میں غزوۂ بدر کے موقعے پر جن قیدیوں کو گرفتار کیا گیا، ان میں بعض ایسے بھی تھے کہ وہ فدیہ ادا کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے تھے، تو انہیں مسلمان مرد و خواتین کو تعلیم دینے پر مامور کیا گیا تاکہ وہ تعلیم کے عوض رہائی اور آزادی حاصل کرسکیں۔ حضرت محمد ﷺ کی تعلیمی سرگرمیوں میں مردوں کے ساتھ خواتین کو بھی اہمیت دی گئی۔ The All India Ulama Board to condemn the Taliban government's ban on women's education
تنظیم کے ذمہ دار علامہ بنی حسنی نے کہا کہ تاریخ سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ ﷺ کے عہد مبارک میں معلمین کی طرح معلمات کی بھی تقرری ہوتی تھی۔ حضرت اُم ورقہ، شفاء بنت عبداللہ اور حضرت عائشہ صدیقہؓ کا شمار عہد رسالت کی معلمات میں کیا جاتا ہے۔ رسول کریم ﷺ بیٹیوں کی تعلیم و تربیت کی ترغیب دیا کرتے تھے۔ حدیث میں ہے کہ جس نے تین بیٹیوں کی پرورش کی، ان کی تعلیم و تربیت کی اور ان سے اچھا سلوک کیا تو اس کے لئے جنت کی بشارت ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسلامی ادوار میں تعلیم کے حصول اور فروغ کے لئے مسلسل کاوشیں کی گئیں ہیں، جن میں علوم و فنون کے مختلف میدانوں میں مردوں کے شانہ بشانہ خواتین کی بھی خدمات نمایاں ہیں، اس کی تابناک مثالوں سے تاریخ کے ابواب روشن ہیں۔ مسجد نبوی میں نمازوں کے بعد تعلیم و تلقین کا اہتمام کیا جاتا تھا، جس میں مرد و خواتین یکساں طور پر شریک ہوتے اور جمعہ، عیدین اور حج کے خطبات کے ذریعے عمومی تعلیم و تربیت کا نظم و نسق کیا جاتا تھا۔
مزید پڑھیں:۔ Restrictions On Women اقوام متحدہ نے طالبان سے خواتین سے متعلق سخت پالیسیوں کو واپس لینے کا مطالبہ کیا
انہوں نے کہا کہ موجودہ دور میں جہاں تعلیم کی قدر و اہمیت پہلے کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ بڑھ چکی ہے اور بلا امتیاز مرد و زن تعلیم کے فروغ کے لیے مسلسل تحریکیں سرگرم عمل ہیں۔ ایسے حالات میں تعلیمِ نسواں کے سلسلے میں افغان حکومت کا موجودہ فیصلہ یقیناً ناقابلِ برداشت اور انسانی اقدار کے خلاف ہے، جس پر افغان حکومت کو نظر ثانی کرکے فیصلہ سے رجوع کرنا چاہیے اور مستقبل میں تعلیمِ نسواں کے فروغ کے لیے مضبوط اور خوش آئند اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔
وہیں بورڈ کے ذمہ دارن نے کہا کہ تعلیم زندگی کا بنیادی مقصد ہے اور اسلام نے علم و تعلیم کی ہمیشہ حوصلہ افزائی کی ہے اور اللہ رب العزت نے نبی کریم ﷺ کو غار حرا میں جو پہلی وحی کے ذریعے نبوت سے سرفراز فرمایا اس کا آغاز بھی لفظ ’ اقراء ‘ سے ہوتا ہے، پھر قرآن مقدس میں کئی مقامات پر تحصیلِ علم کی تشویق و ترغیب دلائی ہے۔ طالبان حکومت کا یہ فیصلہ افغان خواتین کے لئے تابوت میں آخری کیل ثابت کرنے کے مترادف ہے اور بین لاقوامی سطح پر اس سے اسلام بھی رسوا ہو رہا ہے کیونکہ اس طرح کے غیر منصفانہ فیصلے اسلام کے نام پر کئے جا رہے ہیں۔ مسلم ممالک کے سربراہان سے یہ اپیل ہے کہ طالبان حکومت سے رابطہ کرکے اس فیصلہ کو منسوخ کروایا جائے۔ حکومت ہند کو بھی سفارتی سطح پر اس فیصلے کی مذمت کرنی چاہئے اس لئے کہ یہ صرف خواتین کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ افغانستان کی آنے والی نسلوں کا مسئلہ ہے۔