آل انڈیا بار ایسوسی ایشن کی جانب سے کرناٹک ہائی کورٹ میں مسلم پرسنل لاء بورڈ کو شامل کرنے کے لیے ایک درخواست دائر کی گئی ہے، جو فی الحال حجاب کے سلسلے میں کئی عرضیوں کی سماعت کر رہی ہے۔
سینیئر ایڈووکیٹ اور آل انڈیا بار ایسوسی ایشن کے چیئرمین آدیش سی اگروالا کی طرف سے دائر درخواست میں کہا گیا ہے کہ عدالت اس پہلو پر غور کر رہی ہے کہ کیا حجاب مسلم خواتین کے لیے ایک ضروری مذہبی عمل ہے یا نہیں۔
درخواست گزار نے کہا کہ حجاب معاملے میں کسی بھی پرسنل لاء بورڈ کی جانب سے کوئی نمائندگی نہیں ہے، خواہ وہ آل انڈیا پرسنل لاء بورڈ All India Muslim Personal Law Board ہو یا شیعہ پرسنل لا بورڈ۔ جو ملک میں مسلمانوں کی بڑے پیمانے پر تعاون اور نمائندگی کرتے ہیں اور مسلمانوں کے پرسنل لاء کے مناسب اطلاق کے لیے کام کرتے ہیں نیز ان کی رائے بھی تشکیل دیتے ہیں۔
آدیش اگروالا نے اپنی عرضی میں کہا کہ حجاب پہننے کے ضروری مذہبی عمل کے آئینی جواز کی پوری مشق اس معاملے میں پرسنل لا بورڈ کی نمائندگی کے بغیر نامکمل ہوگی۔
انہوں نے اپنی درخواست میں مزید کہا کہ 'بھارت میں مسلمانوں کے دونوں پرسنل لاء بورڈز فوری درخواست کے فیصلے کے لیے ان کارروائیوں میں ضروری فریق ہیں اور اس لیے ان بورڈز کو انصاف کے مفاد میں شامل کیا جائے اور ان کی سماعت کی جائے۔
چیف جسٹس ریتو راج اوستھی، جسٹس کرشنا ایس دکشت اور جسٹس جے ایم قاضی پر مشتمل تین ججز کی بینچ ریاست کے تعلیمی اداروں میں حجاب پر پابندی کو چیلنج کرنے والی مختلف درخواستوں کی سماعت کر رہی ہے۔
اسی دوران کرناٹک ہائی کورٹ کی بنچ نے بدھ کے روز حجاب معاملے پر سماعت کرتے ہوئے واضح کیا تھا کہ طلبا کو اس کیس کا حتمی فیصلہ آنے تک اسکولز اور کالجز کے ذریعہ تجویز کردہ یونیفارم پہننا چاہیے۔
حجاب معاملے پر سماعت کرتے ہوئے چیف جسٹس ریتو راج اوستھی نے کہا کہ "ہم یہ بالکل واضح کر رہے ہیں کہ اگر ڈگری یا پی یو کالجز میں یونیفارم مقرر ہے، تو فیصلہ آنے تک اس پر عمل کرنا ہوگا۔"
واضح رہے کہ کرناٹک میں حجاب کا معاملہ گزشتہ دسمبر میں شروع ہوا جب ریاست کے اُڈوپی ضلع میں گورنمنٹ گرلز پی یو کالج کی کچھ طالبات کو حجاب کے ساتھ کلاس میں جانے سے روک دیا گیا تھا جس کے بعد طالبات نے صدائے احتجاج بلند کی۔
اس واقعہ کے بعد کرناٹک کے وجے پورہ کے شانتیشور ایجوکیشن ٹرسٹ میں مختلف کالجوں کے طلباء بھگوا شال اور مفلر پہن کر پہنچے اور حجاب کے خلاف احتجاج کیا۔ اُڈوپی ضلع کے کئی کالجوں میں بھی یہی صورتحال تھی۔
واضح رہے کہ پری یونیورسٹی ایجوکیشن بورڈ نے ایک سرکیولر جاری کیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ طلباء صرف وہی یونیفارم پہن سکتے ہیں جسے اسکول انتظامیہ نے منظور کیا ہے اور کالجوں میں کسی اور مذہبی علامت کی اجازت نہیں ہوگی۔