طالبانیوں نے افغانستان کے آخری صوبے پنجشیر پر قبضہ کرنے کی مہم شروع کی لیکن انہیں پنجشیر کی قومی مزاحمتی فورسز (National Resistance Force) کے ساتھ سخت چیلنجز کا سامنا ہے۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق ہفتے کے روز طالبانیوں اورقومی مزاحمتی فورسز کے درمیان ایک خونی جھڑپ ہوئی، جس میں طالبان کو بھاری نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔
مزاحمتی فورسز نے دعویٰ کیا ہے کہ افغانستان کے شمال مشرقی صوبے پنجشیر میں لڑائی میں 600 طالبانی مارے گئے ہیں اور ایک ہزار سے زائد طالبان نے ہتھیار ڈال دیے ہیں۔ 'اسپوتنک نیوز ایجنسی' کے مطابق مزاحمتی فورسز کے ترجمان فہیم دشتی نے ٹویٹ کیا کہ، 'پنجشیر کے مختلف اضلاع میں 600 کے قریب طالبانیوں کا خاتمہ کیا گیا ہے۔ ایک ہزار سے زائد طالبانی پکڑے گئے ہیں یا انہوں نے ہتھیار ڈال دیے ہیں۔
اس کے برعکس طالبان نے دعویٰ کیا ہے کہ اس نے پنجشیر کے چار اضلاع پر قبضہ کر لیا ہے۔ طالبان کے ترجمان بلال کریمی نے کہا کہ 'صوبہ پنجشیر کے سات میں سے چار اضلاع ہمارے کنٹرول میں آگئے ہیں'۔ انہوں نے کہا کہ طالبانی پنجشیر کے مرکز کی طرف بڑھ رہے ہیں'۔ الجزیرہ نیوز نے طالبان کے حوالے سے کہا ہے کہ 'پنجشیر میں لڑائی جاری ہے، لیکن اس کی رفتار دارالحکومت بازارک اور صوبائی گورنر کے کمپاؤنڈ کی جانب جانے والی بارودی سرنگوں کی وجہ سے سست پڑگئی ہے۔
ہفتے کے روز افغانستان کے سابق نائب صدر اور باغی گروپ کے رہنما امر اللہ صالح نے پنجشیر پر قبضے کے طالبان کے دعوے کو مسترد کردیا ہے۔ صالح نے کہا تھا کہ لڑائی ابھی تک پنجشیر میں جاری ہے۔ میں اپنی مٹی کے ساتھ ہوں اور اس کی عزت کی حفاظت کر رہا ہوں۔
مزید پرھیں: افغانستان کی موجودہ صورتحال پر جی 7 وزرائے خارجہ کی میٹنگ متوقع
گذشتہ کئی دنوں سے احمد مسعود اور امراللہ صالح نے پنجشیر میں طالبان کے خلاف محاذ کھول رکھا ہے۔ طالبان اور باغی گروپ کے درمیان مذاکرات پہلے چند دنوں تک جاری رہے، لیکن کوئی حل نہیں ملا۔ اس کے بعد طالبان نے پنجشیر پر قبضہ کرنے کی مہم شروع کی۔
آپ کو بتادیں کہ پنجشیر افغانستان کے قومی مزاحمتی محاذ کا گڑھ ہے، جس کی قیادت گوریلا کے سابق کمانڈر احمد شاہ مسعود کے بیٹے احمد مسعود اور امر اللہ صالح کررہے ہیں، طالبان اس وقت بھی پنجشیر پر قبضہ نہیں کر سکا تھا، جب اس نے سنہ 1996 سے 2001 تک افغانستان پر حکومت کی تھی۔