جموں و کشمیر کا ضلع پلوامہ عسکری سرگرمیوں کے لئے پوری دنیا میں جانا جاتا ہے، ضلع پلوامہ میں تقریبا آج تک ہزاروں کی تعداد میں نوجوانوں نے عسکریت پسندوں کی صفوں میں شمولیت اختیار کی جب کہ فوج نے بھی ضلع میں عسکری مخالف آپریشن کے دوران سینکڑوں نوجوانوں کو ہلاک کیا۔ وادی کے تمام اضلاع میں نامعلوم افراد کی جانب سے روزآنہ گرینیڈ حملے کیے جاتے ہیں گرچہ یہ نامعلوم افراد فوج کو نشانہ بنانے کی کوشش کرتے ہیں تاہم اس کا شکار عام لوگ بھی ہوتے ہیں۔ جس کی وجہ سے اج تک ان حملوں میں کئی نوجوان اور بزرگ مرد و خواتین زخمی ہوئے ہے جب کہ کچھ لوگ ان حملوں میں جان بحق ہوگئے۔
جنوری 1996 میں ضلع پلوامہ کے شہید پارک کے سامنے ایسا ہی ایک واقعہ پیش آیا جس کی وجہ سے ایک خاندان کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوگیا ہے۔ 1996 میں شہید پارک کے سامنے نامعلوم افراد نے فوج کو نشانہ بنانے کی کوشش کی، جس کی زد میں اشمندر علاقے سے تعلق رکھنے والے دو بھائی آگئے۔ اس گرینیڈ حملے میں عبد الرشید شیخ جان بحق ہوگئے جب کہ ان کا بھائی ان کو بچانے کی کوشش میں گاڑی کے نیچے آگیا، جس کی وجہ سے ان کی بھی موت ہوگئی۔ دونوں بھائی اپنے والدین کے واحد سہارا تھے، تاہم ان کے انتقال کے بعد ان کے والدین کسمپرسی کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔
اس سلسلے میں ان کے والد غلام رسول شیخ نے ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے کہا میرے بچوں کے انتقال کے بعد میرا کوئی سہارا نہیں رہا۔انہوں نے کہا کہ ان کی بیٹیوں کی شادی کروانے میں علاقے کے لوگوں نے ان کی مدد کی۔ ہلاک ہوئے بچوں کی والدہ زیبہ نے کہا کہ 1996 میں میرے بچے پلوامہ میں کام کررہے تھے اور اچانک گرینیڈ حملہ ہوا۔ انہوں نے کہا کہ ان کے بڑے بیٹے کے سینہ میں گرینیڈ کے چھرے لگے جس سے ان کی موت ہوگئی جبکہ ان کا دوسرا بیٹا اپنے بھائی کو بچانے کی کوشش میں گاڑی کے نیچے آ گیا جس کی وجہ سے ان کی بھی موت ہوگئی۔
- مزید پڑھیں:۔ ای ٹی وی بھارت کی خبر کا اثر: بے سہارا خاندان کی مدد
انہوں نے کہا کہ اب ہمارا کوئی سہارا نہیں ہے ۔انہوں نے اس بات کا اعتراف بھی کیا کہ محکمہ سوشل ویلفیئر کی جانب سے انہیں ماہانہ ہزار روپے دیے جاتے تھے جس کی وجہ سے وہ اپنی زندگی گزار رہے تھے تاہم اب تین یا چار ماہ کے بعد دیا جاتا ہے جس کی وجہ سے زندگی گزارنے میں مشکلات پیش آرہی ہیں۔ اس سلسلے میں علاقے کے نمبردار بشیر احمد میر نے کہا کہ ان کا کوئی سہارا نہیں ہے اب یہ ایک کمرے میں ہی اپنی زندگی گزار رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ دونوں اب محتلف بیماریوں میں مبتلا ہوچکے ہیں انہوں نے انتظامیہ سے اپیل کی ان کی مالی مدد کی جائے تاکہ یہ اپنی زندگی بہتر طریقے سے گزار سکیں۔اس سلسلے میں خورشید احمد میر نے بھی انتظامیہ سے اپیل کی ہے کہ وہ ان کی مالی امداد کرے تاکہ وہ اپنی صحت کی اچھی دیکھ بھال کرسکیں۔