ETV Bharat / bharat

75 Years of Independence: بھگت سنگھ جنہوں نے انصاف کیلئے صرف ایک گولی چلائی

author img

By

Published : Dec 5, 2021, 6:05 AM IST

بھگت سنگھ Bhagat Singh ایک ایسے انقلابی اور مجاہد آزادی ہیں جو آنے والی ہر نسل کے لیے مشعل راہ ہیں۔ مؤرخین اور ان کے خاندان کے افراد کا کہنا ہے کہ وہ ایک ایسے نوجوان تھے جو ایک بہتر دنیا دیکھنا چاہتے تھے جو خون اور قتل غارت کی خبروں پر افسردہ ہوتے تھے لیکن وہ ظلم اور نا انصافی کو بھی برداشت نہیں کرسکتے تھے۔

جنہوں نے انصاف کے لیے صرف ایک گولی چلائی
جنہوں نے انصاف کے لیے صرف ایک گولی چلائی

بھارت کی تحریک آزادی Indian Independence Movement جو اپنے عدم تشدد non-violence کے طریقوں کے لیے مشہور ہے۔ اس تحریک نے بہت سے انقلابیوں کو جنم دیا۔لیکن ان انقلابیوں میں سے ایک نام جو سب سے زیادہ ابھر کر سامنے آیا، وہ تھا بھگت سنگھ Bhagat Singh کا ۔ لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ بھگت سنگھ نے ظلم کے خلاف اس جنگ میں صرف ایک بار گولی چلائی تھی۔

اس عظیم مجاہد آزادی کا ماننا تھا کہ جسم کو مارا جاسکتا ہے لیکن مضبوط ذہن کو نہیں، خیالات اور نظریہ ہمیشہ امر رہتے ہیں اور بھگت سنگھ نے اپنی زندگی کے ذریعہ اس بات کو ثابت کیا ہے۔ ان کی زندگی نئی نسل کے لیے ایک پیغام ہے۔

بھگت سنگھ 28 ستمبر 1907 کو لائل پور میں پیدا ہوئے تھے، جو اب پاکستان کا حصہ ہے۔ وہ اپنے والد اور چاچا کے انقلابی جنون کو دیکھتے ہوئے بڑے ہوئے ہیں، جن کا تعلق آریہ سماج اور غدر پارٹی سے تھا۔ ان کا آبائی گھر آج بھی پاکستان کے لاہور میں واقع ہے، جس کی نطرانی بھگت سنگھ میموریل فاؤنڈیشن کر رہا ہے۔ بھگت سنگھ میموریل فاؤنڈیشن بھگت سنگھ کو قومی شہید کا درجہ دینے کا مطالبہ کر رہی ہےْ

بھگت سنگھ ، جنہوں نے انصاف کے لیے صرف ایک گولی چلائی

سنہ 1928 تک بھگت سنگھ کسی دوسرے بھارتی نوجوان کی طرح تھے جو بھارت کی سرزمین سے انگریزوں کو بھگانا چاہتے تھے۔ کتابوں کے شوقین بھگت سنگھ نے بطور مصنف نوآبادیاتی قوتوں کے خلاف قلم کو بطور ہتھیار استعمال کیا۔ بھگت سنگھ کی پیدائش ایک سیاسی گھرانے میں ہوئی تھی اس لیے بلوغت کو پہنچنے سے پہلے ان کے ذہن میں انقلاب کا بیج بویا جاچکا تھا۔

بھگت سنگھ کی زندگی کا اہم موڑ

بھارت میں سائمن کمیشن کی آمد اور اس کمیشن کی مخالفت کے دوران لالا لالجپت رائے کی موت نے بھگت سنگھ کی زندگی کو بدل کر رکھ دیا۔ ہندوستان کے لیے آئینی اصلاحات کا جائزہ لینے کے لیے 7 رکنی سائمن کمیشن کی تشکیل دی گئی۔ سائمن کمیشن کے تمام اراکین انگریز تھے، جس کی وجہ سے عوام اور سیاسی حلقوں میں احتجاج کی ایک لہر دوڑ گئی۔ اسی کمیشن کے خلاف لاہور میں ایک بڑے پیمانے پر احتجاجی مظاہرہ کیا گیا، جس کی قیادت لالا لالجپت رائے کر رہے تھے۔

اس احتجاج میں بھگت سنگھ اور ان کے دوست بھی شامل ہوئے اور سائمن کمیشن کو کالے جھنڈے دکھائے۔ لیکن برطانوی سپرنٹنڈنٹ آف پولیس جے اے اسکاٹ نے اپنے اہلکاروں کو اس احتجاج کو کچھلنے کا حکم دیا۔ جس کے بعد پولیس نے وہاں لاٹھی چارج شروع کردی۔ اس دوران لالا لالجپت کو شدید چوٹیں آئیں اور یہیں ان کی موت کی وجہ ثابت ہوا۔ ان کی موت نے پورے بھارت کو غم اور صدمہ میں مبتلا کردیا تھا۔

اس خبر نے بھگت سنگھ اور ان کی بھارتی سوشلسٹ ریپبلک آرمی نے انگریزوں کو اس تشدد کا سبق سکھانے کا عزم کیا۔ انہوں نے نوآبادیاتی پولیس کی بربریت کے خلاف جوابی کارروائی کرنے کا فیصلہ کیا۔

اور 17 دسمبر کو بھگت سنگھ اور ان کے ساتھیوں راج گرو، سکھ دیو اور چندر شیکھر آزاد نے 21 سالہ جان سانڈرز کو جے اے اسکاٹ سمجھ کر گولی مار دی۔ اس معاملے کے کئی مہینوں تک انگریز بھگت سنگھ اور راج گرو کو گرفتار نہیں کر پائے لیکن اس دوران ان دونوں نے لالہ لاجپت رائے کی موت کا بدلہ لینے کے لیے اپنی سرگرمیاں جاری رکھیں۔

اس وقت تک بھگت سنگھ اور ان کا نعرہ انقلاب زندہ باد لوگوں کے ذہن میں ایک جنون بن گیا۔ یہ نعرہ اصل میں اردو کے شاعر، آزادی پسند اور آل انڈیا مسلم لیگ کے رہنما مولانا حسرت موہانی نے سنہ 1921 میں دیا تھا۔ جسے بھگت سنگھ نے سنہ 1920 کی دہائی کے آخر میں اپنی تقریروں اور تحریروں کے ذریعے مقبول بنایا تھا۔

انگریزوں کو گرفتاری کا چیلنج دیا

سنہ 8 اپریل 1929 کو بھگت سنگھ اور بٹوکیشور دتا نے دہلی میں سنٹرل لیجسلیٹو اسمبلی ہال میں بم پھینکا۔ انہوں نے یہ بم قانون سازوں کی سے بھری گیلری میں پھینکا، اس بم کو پھینکنے کا مقصد کسی کو نقصان نہیں بلکہ ایوان، بھارتی عوام اور برطانوی حکمرانوں کی توجہ مبذول کروانا تھا۔ انہوں نے بم ہی نہیں بلکہ پمفلٹ بھی پھینکے، جس میں لکھا تھا کہ 'بہری حکومت کو جگانے کے لیے دھماکوں کی ضرورت ہے اور انہیں پولیس کی جانب سے گرفتار کرنے کا انتظار ہے'۔

چونکہ یہ صرف ایک دھماکہ تھا اور کسی کو نقصان نہیں پہنچا تھا، اس لیے انہیں عمر قید کی سزا سنائی گئی۔ لیکن انگریز جو کسی بھی طرح بھگت سنگھ کو پھانسی دینا چاہتے تھے، انہوں نے اس گرفتاری کے ساتھ سانڈرز کے قتل کی تحقیقات شروع کر دیں۔

سنہ 7 اکتوبر 1930 کو ٹریبونل نے بھگت سنگھ، سکھ دیو اور راج گرو کو سانڈرز کے قتل کا مجرم قرار دیا اور انہیں موت کی سزا سنائی۔ مورخ امولک سنگھ کے مطابق بھگت سنگھ کی جیل ڈائری میں اس بات کا ذکر ہے کہ ان کی 23 سال کی پوری زندگی میں انہوں نے صرف ایک گولی چلائی تھی۔

مزید پڑھیں: 75Years of Independence: نیتا جی سبھاس کی انگریزی ناشتے سے محبت کے راز

برطانوی حکمرانوں کا غصہ یہیں نہیں رکا۔ انہوں نے تینوں انقلابیوں کو 23 مارچ 1931 کو اس وقت پھانسی دی جب لاہور جیل کے باہر ایک بہت بڑا ہجوم جمع تھا۔ انگریزوں نے ان تینوں نوجوانوں کی پھانسی کے خلاف بڑے پیمانے پر ہورہے احتجاج کو ذرا بھی اہمیت نہیں دی۔ گاندھی نے حکومت سے بھی اپیل کی لیکن سب بے سود رہا۔

پاکستان کے لاہور میں واقع ان کا آبائی گھر آج بھی بھگت سنگھ میموریل فاؤنڈیشن کی نگرانی میں ہے۔ لاہور میں واقع بھگت سنگھ میموریل فاؤنڈیشن بھگت سنگھ کو قومی شہید کا درجہ دینے کا مطالبہ کر رہی ہے اور بھارت میں آج بھی بھگت سنگھ کی بہادری کی داستان ہر بھارتی کی آنکھوں کو نم کرنے کے ساتھ باعث فخر بھی ہے۔

بھارت کی تحریک آزادی Indian Independence Movement جو اپنے عدم تشدد non-violence کے طریقوں کے لیے مشہور ہے۔ اس تحریک نے بہت سے انقلابیوں کو جنم دیا۔لیکن ان انقلابیوں میں سے ایک نام جو سب سے زیادہ ابھر کر سامنے آیا، وہ تھا بھگت سنگھ Bhagat Singh کا ۔ لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ بھگت سنگھ نے ظلم کے خلاف اس جنگ میں صرف ایک بار گولی چلائی تھی۔

اس عظیم مجاہد آزادی کا ماننا تھا کہ جسم کو مارا جاسکتا ہے لیکن مضبوط ذہن کو نہیں، خیالات اور نظریہ ہمیشہ امر رہتے ہیں اور بھگت سنگھ نے اپنی زندگی کے ذریعہ اس بات کو ثابت کیا ہے۔ ان کی زندگی نئی نسل کے لیے ایک پیغام ہے۔

بھگت سنگھ 28 ستمبر 1907 کو لائل پور میں پیدا ہوئے تھے، جو اب پاکستان کا حصہ ہے۔ وہ اپنے والد اور چاچا کے انقلابی جنون کو دیکھتے ہوئے بڑے ہوئے ہیں، جن کا تعلق آریہ سماج اور غدر پارٹی سے تھا۔ ان کا آبائی گھر آج بھی پاکستان کے لاہور میں واقع ہے، جس کی نطرانی بھگت سنگھ میموریل فاؤنڈیشن کر رہا ہے۔ بھگت سنگھ میموریل فاؤنڈیشن بھگت سنگھ کو قومی شہید کا درجہ دینے کا مطالبہ کر رہی ہےْ

بھگت سنگھ ، جنہوں نے انصاف کے لیے صرف ایک گولی چلائی

سنہ 1928 تک بھگت سنگھ کسی دوسرے بھارتی نوجوان کی طرح تھے جو بھارت کی سرزمین سے انگریزوں کو بھگانا چاہتے تھے۔ کتابوں کے شوقین بھگت سنگھ نے بطور مصنف نوآبادیاتی قوتوں کے خلاف قلم کو بطور ہتھیار استعمال کیا۔ بھگت سنگھ کی پیدائش ایک سیاسی گھرانے میں ہوئی تھی اس لیے بلوغت کو پہنچنے سے پہلے ان کے ذہن میں انقلاب کا بیج بویا جاچکا تھا۔

بھگت سنگھ کی زندگی کا اہم موڑ

بھارت میں سائمن کمیشن کی آمد اور اس کمیشن کی مخالفت کے دوران لالا لالجپت رائے کی موت نے بھگت سنگھ کی زندگی کو بدل کر رکھ دیا۔ ہندوستان کے لیے آئینی اصلاحات کا جائزہ لینے کے لیے 7 رکنی سائمن کمیشن کی تشکیل دی گئی۔ سائمن کمیشن کے تمام اراکین انگریز تھے، جس کی وجہ سے عوام اور سیاسی حلقوں میں احتجاج کی ایک لہر دوڑ گئی۔ اسی کمیشن کے خلاف لاہور میں ایک بڑے پیمانے پر احتجاجی مظاہرہ کیا گیا، جس کی قیادت لالا لالجپت رائے کر رہے تھے۔

اس احتجاج میں بھگت سنگھ اور ان کے دوست بھی شامل ہوئے اور سائمن کمیشن کو کالے جھنڈے دکھائے۔ لیکن برطانوی سپرنٹنڈنٹ آف پولیس جے اے اسکاٹ نے اپنے اہلکاروں کو اس احتجاج کو کچھلنے کا حکم دیا۔ جس کے بعد پولیس نے وہاں لاٹھی چارج شروع کردی۔ اس دوران لالا لالجپت کو شدید چوٹیں آئیں اور یہیں ان کی موت کی وجہ ثابت ہوا۔ ان کی موت نے پورے بھارت کو غم اور صدمہ میں مبتلا کردیا تھا۔

اس خبر نے بھگت سنگھ اور ان کی بھارتی سوشلسٹ ریپبلک آرمی نے انگریزوں کو اس تشدد کا سبق سکھانے کا عزم کیا۔ انہوں نے نوآبادیاتی پولیس کی بربریت کے خلاف جوابی کارروائی کرنے کا فیصلہ کیا۔

اور 17 دسمبر کو بھگت سنگھ اور ان کے ساتھیوں راج گرو، سکھ دیو اور چندر شیکھر آزاد نے 21 سالہ جان سانڈرز کو جے اے اسکاٹ سمجھ کر گولی مار دی۔ اس معاملے کے کئی مہینوں تک انگریز بھگت سنگھ اور راج گرو کو گرفتار نہیں کر پائے لیکن اس دوران ان دونوں نے لالہ لاجپت رائے کی موت کا بدلہ لینے کے لیے اپنی سرگرمیاں جاری رکھیں۔

اس وقت تک بھگت سنگھ اور ان کا نعرہ انقلاب زندہ باد لوگوں کے ذہن میں ایک جنون بن گیا۔ یہ نعرہ اصل میں اردو کے شاعر، آزادی پسند اور آل انڈیا مسلم لیگ کے رہنما مولانا حسرت موہانی نے سنہ 1921 میں دیا تھا۔ جسے بھگت سنگھ نے سنہ 1920 کی دہائی کے آخر میں اپنی تقریروں اور تحریروں کے ذریعے مقبول بنایا تھا۔

انگریزوں کو گرفتاری کا چیلنج دیا

سنہ 8 اپریل 1929 کو بھگت سنگھ اور بٹوکیشور دتا نے دہلی میں سنٹرل لیجسلیٹو اسمبلی ہال میں بم پھینکا۔ انہوں نے یہ بم قانون سازوں کی سے بھری گیلری میں پھینکا، اس بم کو پھینکنے کا مقصد کسی کو نقصان نہیں بلکہ ایوان، بھارتی عوام اور برطانوی حکمرانوں کی توجہ مبذول کروانا تھا۔ انہوں نے بم ہی نہیں بلکہ پمفلٹ بھی پھینکے، جس میں لکھا تھا کہ 'بہری حکومت کو جگانے کے لیے دھماکوں کی ضرورت ہے اور انہیں پولیس کی جانب سے گرفتار کرنے کا انتظار ہے'۔

چونکہ یہ صرف ایک دھماکہ تھا اور کسی کو نقصان نہیں پہنچا تھا، اس لیے انہیں عمر قید کی سزا سنائی گئی۔ لیکن انگریز جو کسی بھی طرح بھگت سنگھ کو پھانسی دینا چاہتے تھے، انہوں نے اس گرفتاری کے ساتھ سانڈرز کے قتل کی تحقیقات شروع کر دیں۔

سنہ 7 اکتوبر 1930 کو ٹریبونل نے بھگت سنگھ، سکھ دیو اور راج گرو کو سانڈرز کے قتل کا مجرم قرار دیا اور انہیں موت کی سزا سنائی۔ مورخ امولک سنگھ کے مطابق بھگت سنگھ کی جیل ڈائری میں اس بات کا ذکر ہے کہ ان کی 23 سال کی پوری زندگی میں انہوں نے صرف ایک گولی چلائی تھی۔

مزید پڑھیں: 75Years of Independence: نیتا جی سبھاس کی انگریزی ناشتے سے محبت کے راز

برطانوی حکمرانوں کا غصہ یہیں نہیں رکا۔ انہوں نے تینوں انقلابیوں کو 23 مارچ 1931 کو اس وقت پھانسی دی جب لاہور جیل کے باہر ایک بہت بڑا ہجوم جمع تھا۔ انگریزوں نے ان تینوں نوجوانوں کی پھانسی کے خلاف بڑے پیمانے پر ہورہے احتجاج کو ذرا بھی اہمیت نہیں دی۔ گاندھی نے حکومت سے بھی اپیل کی لیکن سب بے سود رہا۔

پاکستان کے لاہور میں واقع ان کا آبائی گھر آج بھی بھگت سنگھ میموریل فاؤنڈیشن کی نگرانی میں ہے۔ لاہور میں واقع بھگت سنگھ میموریل فاؤنڈیشن بھگت سنگھ کو قومی شہید کا درجہ دینے کا مطالبہ کر رہی ہے اور بھارت میں آج بھی بھگت سنگھ کی بہادری کی داستان ہر بھارتی کی آنکھوں کو نم کرنے کے ساتھ باعث فخر بھی ہے۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.