ETV Bharat / bharat

Babri Masjid Demolition Anniversary بابری مسجد سانحہ: کب کیا ہوا-ایک نظر

تجزیہ نگار مانتے ہیں کہ مرکزی بی جے پی حکومت نے سپریم کورٹ کے بابری مسجد سے متعلق فیصلہ کو اپنی کامیابی قرار دیا اور پارلیمانی و اسمبلی انتخابات میں اس موضوع کو اپنا ہتھار بنا کر ہندو ووٹروں کی حمایت حاصل کرنے کی پوری کوشش کی اور بڑی حد تک اس میں کامیابی بھی ملی ہے۔

بابری مسجد سانحہ: کب کیا ہوا-ایک نظر
بابری مسجد سانحہ: کب کیا ہوا-ایک نظر
author img

By

Published : Dec 6, 2022, 6:51 AM IST

Updated : Dec 6, 2022, 2:07 PM IST

اتر پردیش کے تاریخی شہر ایودھیا میں اِس وقت رام مندر کی ترتعمیر جاری ہے۔ عین اسی جگہ پر تیس سال قبل ایک عالیشان مسجد کھڑی تھی جس کے بارے میں ہندوؤں کا دعوی تھا کہ وہ بھگوان رام کی جائے پیدائش ہے جہاں شہنشاہ بابر کے دور اقتدار میں مسجد تعمیر کی گئی تھی۔ مسجد پر عدالتی تنازعے کے بیچ 6 دسمر 1992 کو ایک ہجوم نے اس مسجد کے میناروں پر چڑھ کر اسے شہید کردیا۔ یہ دل سوز واقعہ آزادی کے بعد ہندوستان کی تاریخ کا ایک اہم باب بن گیا جس نے ملک کی سیاست کا دھارا ہی بدل دیا۔

بابری مسجد سانحہ: کب کیا ہوا-ایک نظر

بابری مسجد کا احاطہ مکمل طور رام مندر کی ملکیت میں دینے کا فیصلہ نو نومبر 2019 کو سپریم کورٹ نے صادر کیا۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے سامنے سبھی نے سرتسلیم خم کیا ۔ سپریم کورٹ نے مسلم فریق سنی وقف بورڈ کو ایودھیا کی مضافات میں ہی مسجد کی تعمیر کے لیے پانچ ایکڑ زمین مہیا کرانے کاحکم دیا، حالانکہ مسلمانوں نے مسجد کے لئے زمین لینے میں عدم دلچسپی کا مظاہرہ کیا۔ تجزیہ نگار مانتے ہیں کہ مرکزی بی جے پی حکومت نے سپریم کورٹ کے اس فیصلہ کو اپنی کامیابی قرار دیا اور پارلیمانی و اسمبلی انتخابات میں اس موضوع کو اپنا ہتھار بنا کر ہندو ووٹروں کی حمایت حاصل کرنے کی پوری کوشش کی اور بڑی حد تک اس میں کامیابی بھی ملی ہے۔ حالیہ دنوں میں ملک کی مختلف ریاستوں میں جاری ضمنی و بلدیاتی انتخابات میں بھی بابری مسجد کو موضوع بحث بنایا گیا اور جلد از جلد رام مندر کی تعمیر کی یقین دہانی کرائی گئی۔ تجزیہ نگاروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ 2024 عام انتخابات سے قبل بی جے پی رام مندر کی تعمیر کو یقینی بنا سکتی ہے تاکہ اسے ووٹ بٹورنے کیلئے استعمال کیا جاسکے۔

تین گنبدوں والی یہ قدیم مسجد شہنشاہ بابرکے دور میں اودھ کے حاکم میر باقی اصفہانی نے 1528ء میں تعمیر کرائی تھی۔ 27مارچ 1932ء کو گئو کشی کے نام پر ہندو انتہا پسندوں نے بابری مسجد کو نشانہ بناکر پہلی مرتبہ ہنگامہ برپا کیا تھا اور مسجد میں گھس کر ان بلوائیوں نے توڑ پھوڑ کی تھی۔ جس کے بعد کئی دہائیوں تک قانونی پیچیدگیوں اور زیرالتوا ثبوتوں کی وجہ سے یہ معاملہ عدالتوں میں زیر بحث رہا۔ اس دوران بابری مسجد کئی اہم واقعات کی گواہ رہی جبکہ چھ دسمبر 1992 کا وہ دن تھا، جس دن تاریخی بابری مسجد کو کارسیوکوں نے منہدم کردیا تھا۔ تبھی سے ہر برس 6 دسمبر کو رام جنم بھومی کی حامی تنظیمیں ’شوریہ دیوس’ اور مسلم تنظیمیں ’یوم سیاہ‘ کے طور پر مناتے آرہے ہیں۔

اس معاملہ میں 30 ستمبر 2010 کو الہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنؤ بنچ نے فیصلہ سناتے ہوئے 2.77 ایکڑ متنازع اراضی کو تین حصوں میں تقسیم کرتے ہوئے سنی وقف بورڈ، نرموہی اکھاڑہ اور رام للا کے حوالے کرنے کا حکم دیا تھا۔ 2010 میں ہندو اور مسلمان تنظیموں نے الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیلیں دائر کر دی تھیں جس کے بعد 2011 میں سپریم کورٹ نے اس فیصلے کو معطل کر دیا تھا۔ سپریم کورٹ نے نو نومبر 2019 کو بابری مسجد۔رام مندر اراضی تنازع کیس کا فیصلہ رام للا کے حق میں سنایا اور متنازع اراضی پر رام مندر کی تعمیر کا راستہ صاف کردیا۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس رنجن گگوئی کی قیادت والی سات ججوں کی آئینی بینچ نے اپنا فیصلہ سناتے ہوئے متنازع اراضی کو ہندو فریق رام للا کے حوالے کرنے کا فیصلہ سنایا جبکہ مسلم فریق سنی وقف بورڈ کو ایودھیا میں ہی مسجد کی تعمیر کے لیے پانچ ایکڑ زمین مہیا کرانے کا حکومت کو حکم دیا۔ عدالت نے فیصلہ سناتے ہوئے یہ مانا تھا کہ بابری مسجد کو مندر منہدم کرکے نہیں تعمیر کیا گیا تھا جبکہ وہاں مندر ہونے کا کوئی بھی ثبوت نہیں ملا ہے۔ اپنے فیصلے میں عدالت نے 6 دسمبر 1992 میں بابری مسجد کی شہادت کو مجرمانہ حرکت قرار دیا۔

مزید پڑھیں:۔ Alternative Site in Babri Masjid Case بابری مسجد کیس میں متبادل جگہ پر تعمیر ہونے والی مسجد کا نام دھنی پور ایودھیا ہوگا

آپ کو بتا دیں کہ بابری مسجد۔رام مندر کا یہ کیس کئی دہائیوں تک چلا اور آخر کار فیصلہ رام مندر کی تعمیر کے حق میں آیا جبکہ مسلمانوں کو ایودھیا میں ہی دوسرے مقام پر مسجد کی تعمیر کے لیے پانچ ایکڑ زمین مہیا کرانے کا عدالت نے فیصلہ سنایا۔ بابری مسجد کی شہادت میں ملوث بی جے پی کے رہنما اور کارسیوکوں کو بھی سی بی آئی کی عدالت نے بری کردیا، اس معاملے میں ملزم ایل کے اڈوانی، مرلی منوہر جوشی، اوما بھارتی اور کلیان سنگھ سمیت تمام 32 ملزمان کو عدالت نے یہ کہتے ہوئے بری کر دیا کہ ان کے خلاف ثبوت ناکافی ہیں۔ سپریم کورٹ کے فیصلہ کے بعد 5 اگست 2020 کو ایودھیا میں ایک تقریب منعقد کرکے رام مندر تعمیر کے لیے بھومی پوجا کی گئی جس میں خود وزیراعظم نریندر مودی نے شرکت کی تھی اور 40 کلو چاندی کی اینٹ سے مندر کی بنیاد رکھی۔

اتر پردیش کے تاریخی شہر ایودھیا میں اِس وقت رام مندر کی ترتعمیر جاری ہے۔ عین اسی جگہ پر تیس سال قبل ایک عالیشان مسجد کھڑی تھی جس کے بارے میں ہندوؤں کا دعوی تھا کہ وہ بھگوان رام کی جائے پیدائش ہے جہاں شہنشاہ بابر کے دور اقتدار میں مسجد تعمیر کی گئی تھی۔ مسجد پر عدالتی تنازعے کے بیچ 6 دسمر 1992 کو ایک ہجوم نے اس مسجد کے میناروں پر چڑھ کر اسے شہید کردیا۔ یہ دل سوز واقعہ آزادی کے بعد ہندوستان کی تاریخ کا ایک اہم باب بن گیا جس نے ملک کی سیاست کا دھارا ہی بدل دیا۔

بابری مسجد سانحہ: کب کیا ہوا-ایک نظر

بابری مسجد کا احاطہ مکمل طور رام مندر کی ملکیت میں دینے کا فیصلہ نو نومبر 2019 کو سپریم کورٹ نے صادر کیا۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے سامنے سبھی نے سرتسلیم خم کیا ۔ سپریم کورٹ نے مسلم فریق سنی وقف بورڈ کو ایودھیا کی مضافات میں ہی مسجد کی تعمیر کے لیے پانچ ایکڑ زمین مہیا کرانے کاحکم دیا، حالانکہ مسلمانوں نے مسجد کے لئے زمین لینے میں عدم دلچسپی کا مظاہرہ کیا۔ تجزیہ نگار مانتے ہیں کہ مرکزی بی جے پی حکومت نے سپریم کورٹ کے اس فیصلہ کو اپنی کامیابی قرار دیا اور پارلیمانی و اسمبلی انتخابات میں اس موضوع کو اپنا ہتھار بنا کر ہندو ووٹروں کی حمایت حاصل کرنے کی پوری کوشش کی اور بڑی حد تک اس میں کامیابی بھی ملی ہے۔ حالیہ دنوں میں ملک کی مختلف ریاستوں میں جاری ضمنی و بلدیاتی انتخابات میں بھی بابری مسجد کو موضوع بحث بنایا گیا اور جلد از جلد رام مندر کی تعمیر کی یقین دہانی کرائی گئی۔ تجزیہ نگاروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ 2024 عام انتخابات سے قبل بی جے پی رام مندر کی تعمیر کو یقینی بنا سکتی ہے تاکہ اسے ووٹ بٹورنے کیلئے استعمال کیا جاسکے۔

تین گنبدوں والی یہ قدیم مسجد شہنشاہ بابرکے دور میں اودھ کے حاکم میر باقی اصفہانی نے 1528ء میں تعمیر کرائی تھی۔ 27مارچ 1932ء کو گئو کشی کے نام پر ہندو انتہا پسندوں نے بابری مسجد کو نشانہ بناکر پہلی مرتبہ ہنگامہ برپا کیا تھا اور مسجد میں گھس کر ان بلوائیوں نے توڑ پھوڑ کی تھی۔ جس کے بعد کئی دہائیوں تک قانونی پیچیدگیوں اور زیرالتوا ثبوتوں کی وجہ سے یہ معاملہ عدالتوں میں زیر بحث رہا۔ اس دوران بابری مسجد کئی اہم واقعات کی گواہ رہی جبکہ چھ دسمبر 1992 کا وہ دن تھا، جس دن تاریخی بابری مسجد کو کارسیوکوں نے منہدم کردیا تھا۔ تبھی سے ہر برس 6 دسمبر کو رام جنم بھومی کی حامی تنظیمیں ’شوریہ دیوس’ اور مسلم تنظیمیں ’یوم سیاہ‘ کے طور پر مناتے آرہے ہیں۔

اس معاملہ میں 30 ستمبر 2010 کو الہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنؤ بنچ نے فیصلہ سناتے ہوئے 2.77 ایکڑ متنازع اراضی کو تین حصوں میں تقسیم کرتے ہوئے سنی وقف بورڈ، نرموہی اکھاڑہ اور رام للا کے حوالے کرنے کا حکم دیا تھا۔ 2010 میں ہندو اور مسلمان تنظیموں نے الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیلیں دائر کر دی تھیں جس کے بعد 2011 میں سپریم کورٹ نے اس فیصلے کو معطل کر دیا تھا۔ سپریم کورٹ نے نو نومبر 2019 کو بابری مسجد۔رام مندر اراضی تنازع کیس کا فیصلہ رام للا کے حق میں سنایا اور متنازع اراضی پر رام مندر کی تعمیر کا راستہ صاف کردیا۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس رنجن گگوئی کی قیادت والی سات ججوں کی آئینی بینچ نے اپنا فیصلہ سناتے ہوئے متنازع اراضی کو ہندو فریق رام للا کے حوالے کرنے کا فیصلہ سنایا جبکہ مسلم فریق سنی وقف بورڈ کو ایودھیا میں ہی مسجد کی تعمیر کے لیے پانچ ایکڑ زمین مہیا کرانے کا حکومت کو حکم دیا۔ عدالت نے فیصلہ سناتے ہوئے یہ مانا تھا کہ بابری مسجد کو مندر منہدم کرکے نہیں تعمیر کیا گیا تھا جبکہ وہاں مندر ہونے کا کوئی بھی ثبوت نہیں ملا ہے۔ اپنے فیصلے میں عدالت نے 6 دسمبر 1992 میں بابری مسجد کی شہادت کو مجرمانہ حرکت قرار دیا۔

مزید پڑھیں:۔ Alternative Site in Babri Masjid Case بابری مسجد کیس میں متبادل جگہ پر تعمیر ہونے والی مسجد کا نام دھنی پور ایودھیا ہوگا

آپ کو بتا دیں کہ بابری مسجد۔رام مندر کا یہ کیس کئی دہائیوں تک چلا اور آخر کار فیصلہ رام مندر کی تعمیر کے حق میں آیا جبکہ مسلمانوں کو ایودھیا میں ہی دوسرے مقام پر مسجد کی تعمیر کے لیے پانچ ایکڑ زمین مہیا کرانے کا عدالت نے فیصلہ سنایا۔ بابری مسجد کی شہادت میں ملوث بی جے پی کے رہنما اور کارسیوکوں کو بھی سی بی آئی کی عدالت نے بری کردیا، اس معاملے میں ملزم ایل کے اڈوانی، مرلی منوہر جوشی، اوما بھارتی اور کلیان سنگھ سمیت تمام 32 ملزمان کو عدالت نے یہ کہتے ہوئے بری کر دیا کہ ان کے خلاف ثبوت ناکافی ہیں۔ سپریم کورٹ کے فیصلہ کے بعد 5 اگست 2020 کو ایودھیا میں ایک تقریب منعقد کرکے رام مندر تعمیر کے لیے بھومی پوجا کی گئی جس میں خود وزیراعظم نریندر مودی نے شرکت کی تھی اور 40 کلو چاندی کی اینٹ سے مندر کی بنیاد رکھی۔

Last Updated : Dec 6, 2022, 2:07 PM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.