ETV Bharat / bharat

مسلمان مرد کی ہندو عورت کے ساتھ دوسری شادی باطل: گوہاٹی ہائی کورٹ

گوہاٹی ہائی کورٹ کے جج جسٹس کلیان رائے سورنہ نے کہا کہ خصوصی شادی ایکٹ (Special Marriage Act ) 1954 کی دفعہ 4 یہ بتاتی ہے کہ خصوصی شادی کی شرائط میں یہ ہے کہ کسی بھی فریق کا شریک حیات پہلے سے نہیں ہونا چاہئے۔

Gauhati HC
Gauhati HC
author img

By

Published : Sep 15, 2021, 4:53 PM IST

گوہاٹی ہائی کورٹ نے اسپیشل میرج ایکٹ معاملے کے تحت ایک دلچسپ فیصلے میں کہا کہ اسپیشل میرج ایکٹ 1954 ایک مسلمان مرد کی ہندو خاتون کے ساتھ دوسری شادی کو تحفظ فراہم نہیں کرتا ہے اور ایسے میں یہ شادی باطل ہوجائے گی۔

12 سالہ لڑکے کی ماں اور سہاب الدین احمد کی دوسری بیوی دیپامنی کلیتا نے اس سے قبل عدالت میں ایک رٹ دائر کی تھی، جب اتھارٹی نے اس کی پنشن اور دیگر پنشنری فوائد کے دعوے کو مسترد کردیا تھا۔ جولائی 2017 میں ایک سڑک حادثے میں اس کے شوہر کی موت واقع ہوگئی تھی۔

آرٹیکل 226 کے تحت 2019 میں رٹ پٹیشن دائر کی گئی تھی۔ احمد اپنی موت کے وقت کامروپ (دیہی) ضلع میں ڈپٹی کمشنر کے دفتر میں 'لاٹ منڈل' کے طور پر خدمات انجام دے رہے تھے۔

گوہاٹی ہائی کورٹ کے جج جسٹس کلیان رائے سورنہ نے کہا کہ خصوصی شادی ایکٹ (special marriage act ) 1954 کی دفعہ 4 یہ بتاتی ہے کہ خصوصی شادی کی شرائط میں یہ ہے کہ کسی بھی فریق کا شریک حیات پہلے سے نہیں ہونا چاہئے۔

کورٹ نے کہا کہ ''یہ تنازع میں نہیں ہے کہ درخواست گزار اور مرحوم سہاب الدین احمد کے درمیان شادی کی تاریخ یا بعد میں ایک شریک حیات تھی۔ کوئی دستاویز ایسا نہیں ہے جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ پہلی بیوی کے ساتھ درخواست گزار کے شوہر کی پہلے کی شادی منسوخ کردی گئی ہے۔''

سپریم کورٹ کے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے جج نے کہا کہ "محمڈن قانون (Mohammedan law) کے اصولوں کے تحت ایک مسلمان مرد کی غیر اہل کتاب کے ساتھ شادی درست نہیں ہے بلکہ یہ محض ایک اریگولر میرج ہے۔"

عدالت نے کہا کہ محمڈن لاء کے تیسرے سیکشن کے مطابق شادی کا تعلق ہر ایسے مسلمان سے ہے، جس نے شادی کا معاہدہ کیا ہو۔

"درخواست گزار کا مسلمان نہ ہونا، محمڈن لاء کے مطابق نکاح نہیں ہوگا۔''

موجودہ صورت حال میں یہ دیکھا گیا ہے کہ درخواست گزار نے روایتی محمڈن قانون کے مطابق شادی نہیں کی تھی، بلکہ اس نے اسپیشل میرج ایکٹ 1954 کے تحت شادی کی تھی اور یہ کہ مذکورہ ایکٹ کی دفعہ 4 (a) کی شق شادی کو باطل قرار دیتی ہے۔

15 صفحات پر مشتمل عدالتی حکم میں کہا گیا ہے کہ "اس کے علاوہ درخواست گزار اب بھی اپنا ہندو نام استعمال کررہی ہے اور ریکارڈ میں ایسا کچھ نہیں ہے جس سے یہ ظاہر ہوسکے کہ درخواست گزار نے مذہب اسلام کو اپنا عقیدہ مان لیا ہے۔"

عدالت نے رٹ پٹیشن کو مسترد کردیا لیکن فیصلہ دیا کہ قانون کے تحت درخواست گزار کا نابالغ بیٹا اب بھی پنشن کے اپنے حصے اور دیگر پنشنری فوائد کا حقدار ہوگا۔

عدالتی حکم میں کہا گیا ہے کہ "درخواست گزار کے لیے یہ ممکن ہوگا کہ وہ اپنے نابالغ بیٹے کے نام پر بینک اکاؤنٹ کھولے اور درخواست گزار اس کا نام اپنے بیٹے کی ماں اور قدرتی سرپرست کے طور پر درج کرائے۔"

یہ بھی پڑھیں: ان دستاویزات سے نہیں ثابت ہوسکتی شہریت: گوہاٹی ہائی کورٹ

عدالت نے کامروپ (دیہی) کے ڈپٹی کمشنر کو کہا ہے کہ وہ پنشن کا ایک حصہ مرحوم سہاب الدین احمد کے بیٹے پریانکو پارش کو فراہم کرکے پنشن اور دیگر پنشنری فوائد کی تجویز پیش کریں۔

گوہاٹی ہائی کورٹ نے اسپیشل میرج ایکٹ معاملے کے تحت ایک دلچسپ فیصلے میں کہا کہ اسپیشل میرج ایکٹ 1954 ایک مسلمان مرد کی ہندو خاتون کے ساتھ دوسری شادی کو تحفظ فراہم نہیں کرتا ہے اور ایسے میں یہ شادی باطل ہوجائے گی۔

12 سالہ لڑکے کی ماں اور سہاب الدین احمد کی دوسری بیوی دیپامنی کلیتا نے اس سے قبل عدالت میں ایک رٹ دائر کی تھی، جب اتھارٹی نے اس کی پنشن اور دیگر پنشنری فوائد کے دعوے کو مسترد کردیا تھا۔ جولائی 2017 میں ایک سڑک حادثے میں اس کے شوہر کی موت واقع ہوگئی تھی۔

آرٹیکل 226 کے تحت 2019 میں رٹ پٹیشن دائر کی گئی تھی۔ احمد اپنی موت کے وقت کامروپ (دیہی) ضلع میں ڈپٹی کمشنر کے دفتر میں 'لاٹ منڈل' کے طور پر خدمات انجام دے رہے تھے۔

گوہاٹی ہائی کورٹ کے جج جسٹس کلیان رائے سورنہ نے کہا کہ خصوصی شادی ایکٹ (special marriage act ) 1954 کی دفعہ 4 یہ بتاتی ہے کہ خصوصی شادی کی شرائط میں یہ ہے کہ کسی بھی فریق کا شریک حیات پہلے سے نہیں ہونا چاہئے۔

کورٹ نے کہا کہ ''یہ تنازع میں نہیں ہے کہ درخواست گزار اور مرحوم سہاب الدین احمد کے درمیان شادی کی تاریخ یا بعد میں ایک شریک حیات تھی۔ کوئی دستاویز ایسا نہیں ہے جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ پہلی بیوی کے ساتھ درخواست گزار کے شوہر کی پہلے کی شادی منسوخ کردی گئی ہے۔''

سپریم کورٹ کے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے جج نے کہا کہ "محمڈن قانون (Mohammedan law) کے اصولوں کے تحت ایک مسلمان مرد کی غیر اہل کتاب کے ساتھ شادی درست نہیں ہے بلکہ یہ محض ایک اریگولر میرج ہے۔"

عدالت نے کہا کہ محمڈن لاء کے تیسرے سیکشن کے مطابق شادی کا تعلق ہر ایسے مسلمان سے ہے، جس نے شادی کا معاہدہ کیا ہو۔

"درخواست گزار کا مسلمان نہ ہونا، محمڈن لاء کے مطابق نکاح نہیں ہوگا۔''

موجودہ صورت حال میں یہ دیکھا گیا ہے کہ درخواست گزار نے روایتی محمڈن قانون کے مطابق شادی نہیں کی تھی، بلکہ اس نے اسپیشل میرج ایکٹ 1954 کے تحت شادی کی تھی اور یہ کہ مذکورہ ایکٹ کی دفعہ 4 (a) کی شق شادی کو باطل قرار دیتی ہے۔

15 صفحات پر مشتمل عدالتی حکم میں کہا گیا ہے کہ "اس کے علاوہ درخواست گزار اب بھی اپنا ہندو نام استعمال کررہی ہے اور ریکارڈ میں ایسا کچھ نہیں ہے جس سے یہ ظاہر ہوسکے کہ درخواست گزار نے مذہب اسلام کو اپنا عقیدہ مان لیا ہے۔"

عدالت نے رٹ پٹیشن کو مسترد کردیا لیکن فیصلہ دیا کہ قانون کے تحت درخواست گزار کا نابالغ بیٹا اب بھی پنشن کے اپنے حصے اور دیگر پنشنری فوائد کا حقدار ہوگا۔

عدالتی حکم میں کہا گیا ہے کہ "درخواست گزار کے لیے یہ ممکن ہوگا کہ وہ اپنے نابالغ بیٹے کے نام پر بینک اکاؤنٹ کھولے اور درخواست گزار اس کا نام اپنے بیٹے کی ماں اور قدرتی سرپرست کے طور پر درج کرائے۔"

یہ بھی پڑھیں: ان دستاویزات سے نہیں ثابت ہوسکتی شہریت: گوہاٹی ہائی کورٹ

عدالت نے کامروپ (دیہی) کے ڈپٹی کمشنر کو کہا ہے کہ وہ پنشن کا ایک حصہ مرحوم سہاب الدین احمد کے بیٹے پریانکو پارش کو فراہم کرکے پنشن اور دیگر پنشنری فوائد کی تجویز پیش کریں۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.