ETV Bharat / state

Sir Syed Day 2022 سرسید احمد خان، ایک وقت شناس مفکر جو کئی نسلوں کا معمار بنا

سرسید احمد خاں کو محسن بر صغیر کہا جاتا ہے، سرسید نے بھارتیوں اور بالخصوص مسلمانان ہند کی سر بلندی کے لیے ایک صدی قبل جدید تعلیم کا جو خاکہ تیار کیا تھا، اس کی معنویت عہد حاضر کی ضرورت بن گئی ہے۔ Sir Syed Ahmad Khan Birthday

سر سید احمد خان
سر سید احمد خان
author img

By

Published : Oct 17, 2022, 7:35 AM IST

سر سید احمد خان کی پیدائش 17 اکتوبر 1817 کو دہلی میں ہوئی اور ان کی وفات 27 مارچ 1898 کو علی گڑھ میں ہوئی۔ سرسید کا مزار علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی تاریخی جامع مسجد میں موجود ہے۔ سرسید احمد خان نے علی گڑھ کو اپنا میدان عمل بنایا جہاں 81 سال کی عمر میں 27 مارچ 1898 کو انتقال ہوا۔Sir Syed Ahmad Khan Birthday

سرسید احمد خاں کو محسن بر صغیر کہا جاتا ہے، سرسید نے بھارتیوں اور بالخصوص مسلمانان ہند کی سر بلندی کے لیے ایک صدی قبل جدید تعلیم کا جو خاکہ تیار کیا تھا، اس کی معنویت عہد حاضر کی ضرورت بن گئی ہے۔

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے بانی سر سید احمد خان کا شمار جدید بھارت کے معماروں میں ہوتا ہے۔

سرسید احمد خاں کی پیدائش 17 اکتوبر 1817 کو دہلی کے ایک معزز گھرانے میں ہوئی تھی۔آج ان کی پیدائش کے 205 برس مکمل ہو رہے ہیں۔ تقریباً ایک صدی گزر جانے کے بعد بھی ان کا نام مع القاب و آداب (سرسید) پوری آب و تاب کے ساتھ زندہ ہے۔ اپنے والد کے انتقال کے بعد سید احمد نے ملازمت اختیار کر لی۔ پہلے وہ ریڈر ہوئے پھر منصف یا جونئیر حج۔ انھوں نے نہایت تندہی سے اپنے فرائض منصبی کو انجام دیا اور برابر لکھتے بھی رہے۔ ان کو ہمیشہ یہ امید رہی کہ لکھتے رہنے سے ان کی آمدنی بڑھتی رہے گی۔ سید احمد نے ایک کتاب آثار الصنادید کے نام سے دہلی کی یادگار عمارتوں پر لکھی اور پھر آئین اکبری مصنفہ ابوالفضل کی تدوین کی۔ انہوں نے دہلی کو اپنا موضوع فکر بنایا اور اس کی عظمت رفتہ کے آثار و نقوش کو بقائے دوام عطا کرنے کے اسباب فراہم کیے۔ سید احمد نے عظمت رفتہ کی یادوں کوتازہ کرنے کے لیے ایران اور عرب کی سرزمین کی طرف نہیں دیکھا جو ان کے آبا و اجداد کا مسکن رہ چکی تھی۔انہوں نے دہلی کے بادشاہوں کی واقعہ نگاری کرتے وقت اپنی کتاب کی ابتدا میں ہندو مہاراجاؤں کو یاد کیا ہے۔

امتیازی اور خصوصی مطالعے کے لیے وہ اورنگ زیب کے بجائے اکبر کا انتخاب کرتے ہیں،سید احمد خان کے معاصر شاعر مرزا غالب نے آئین اکبری پر جو تقریظ لکھی اس میں غالب نے کہا کہ اس وقت قدیم بادشاہوں کے بجائے انگریز زیادہ قابل مطالعہ ہیں۔

سید احمد نے اس تقریظ کو ناپسند کیا اور اسے واپس کر دیا لیکن سنہ 1857 نے ثابت کر دیا کہ غالب کا خیال درست تھا اور سید احمد کو اس خیال سے متفق ہونا پڑا۔ علی گڑھ مسلم یونیورستی سرسید احمد خان کے خوابوں کی تعبیر ہے جس کو پوری دنیا میں ایک شناخت حاصل ہے۔ اس ادارے کی تعمیر کے لیے سرسید احمد خاں نے پر وہ ممکن کوشش کی اور طریقہ اپنایا جس کو وہ کر سکتے تھے۔

علی گڑھ کی تاریخی نمائش میں 8 اور 10 فروری 1884 کو سرسید احمد خاں نے اپنے پیروں میں گھنگرو باندھ کر ایک ڈرامہ پیش کیا تھا جس میں علامہ شبلی نعمانی جیسی شخصیت بھی موجود تھی، اتنا ہی نہیں انہوں نے علی گڑھ نمائش میں ہی کتابوں کی دکان بھی لگائی تھی۔

علی گڑھ مسلم یونیورستی شعبہ رابطہ عامہ کے ایسوسی ایٹ رکن انچارج پروفیسر راحت ابرار نے خصوصی گفتگو میں بتایا تھا۔ سرسید احمد خاں نے اس ادارے کے قیام کے لیے جو بھی ممکن طریقے ہو سکتے تھے وہ سب اپنائے اور انہوں نے 24 مئی 1875 میں ایک چھوٹے سے مدرسہ سے اس مہم کا آغاز کیا تھا جبکہ سنہ 1877 میں کالج کا سنگ بنیاد رکھا گیا حالانکہ سرسید کا انتقال سنہ 1898 میں ہوا تھا۔ اس کے 22 برس بعد سنہ 1920 میں مدرسے کو یونیورسٹی کا درجہ حاصل ہوا جو آج اپنی ایک سو سالہ تقریب منارہا ہے۔

مزید پڑھیں:'سر سید کی خدمات ناقابل فراموش'

سرسید احمد خاں کو آج پوری دنیا ان کے علمی اور فکری کارنامے کی وجہ سے خراج عقیدت پیش کر رہی ہے۔

سر سید احمد خان کی پیدائش 17 اکتوبر 1817 کو دہلی میں ہوئی اور ان کی وفات 27 مارچ 1898 کو علی گڑھ میں ہوئی۔ سرسید کا مزار علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی تاریخی جامع مسجد میں موجود ہے۔ سرسید احمد خان نے علی گڑھ کو اپنا میدان عمل بنایا جہاں 81 سال کی عمر میں 27 مارچ 1898 کو انتقال ہوا۔Sir Syed Ahmad Khan Birthday

سرسید احمد خاں کو محسن بر صغیر کہا جاتا ہے، سرسید نے بھارتیوں اور بالخصوص مسلمانان ہند کی سر بلندی کے لیے ایک صدی قبل جدید تعلیم کا جو خاکہ تیار کیا تھا، اس کی معنویت عہد حاضر کی ضرورت بن گئی ہے۔

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے بانی سر سید احمد خان کا شمار جدید بھارت کے معماروں میں ہوتا ہے۔

سرسید احمد خاں کی پیدائش 17 اکتوبر 1817 کو دہلی کے ایک معزز گھرانے میں ہوئی تھی۔آج ان کی پیدائش کے 205 برس مکمل ہو رہے ہیں۔ تقریباً ایک صدی گزر جانے کے بعد بھی ان کا نام مع القاب و آداب (سرسید) پوری آب و تاب کے ساتھ زندہ ہے۔ اپنے والد کے انتقال کے بعد سید احمد نے ملازمت اختیار کر لی۔ پہلے وہ ریڈر ہوئے پھر منصف یا جونئیر حج۔ انھوں نے نہایت تندہی سے اپنے فرائض منصبی کو انجام دیا اور برابر لکھتے بھی رہے۔ ان کو ہمیشہ یہ امید رہی کہ لکھتے رہنے سے ان کی آمدنی بڑھتی رہے گی۔ سید احمد نے ایک کتاب آثار الصنادید کے نام سے دہلی کی یادگار عمارتوں پر لکھی اور پھر آئین اکبری مصنفہ ابوالفضل کی تدوین کی۔ انہوں نے دہلی کو اپنا موضوع فکر بنایا اور اس کی عظمت رفتہ کے آثار و نقوش کو بقائے دوام عطا کرنے کے اسباب فراہم کیے۔ سید احمد نے عظمت رفتہ کی یادوں کوتازہ کرنے کے لیے ایران اور عرب کی سرزمین کی طرف نہیں دیکھا جو ان کے آبا و اجداد کا مسکن رہ چکی تھی۔انہوں نے دہلی کے بادشاہوں کی واقعہ نگاری کرتے وقت اپنی کتاب کی ابتدا میں ہندو مہاراجاؤں کو یاد کیا ہے۔

امتیازی اور خصوصی مطالعے کے لیے وہ اورنگ زیب کے بجائے اکبر کا انتخاب کرتے ہیں،سید احمد خان کے معاصر شاعر مرزا غالب نے آئین اکبری پر جو تقریظ لکھی اس میں غالب نے کہا کہ اس وقت قدیم بادشاہوں کے بجائے انگریز زیادہ قابل مطالعہ ہیں۔

سید احمد نے اس تقریظ کو ناپسند کیا اور اسے واپس کر دیا لیکن سنہ 1857 نے ثابت کر دیا کہ غالب کا خیال درست تھا اور سید احمد کو اس خیال سے متفق ہونا پڑا۔ علی گڑھ مسلم یونیورستی سرسید احمد خان کے خوابوں کی تعبیر ہے جس کو پوری دنیا میں ایک شناخت حاصل ہے۔ اس ادارے کی تعمیر کے لیے سرسید احمد خاں نے پر وہ ممکن کوشش کی اور طریقہ اپنایا جس کو وہ کر سکتے تھے۔

علی گڑھ کی تاریخی نمائش میں 8 اور 10 فروری 1884 کو سرسید احمد خاں نے اپنے پیروں میں گھنگرو باندھ کر ایک ڈرامہ پیش کیا تھا جس میں علامہ شبلی نعمانی جیسی شخصیت بھی موجود تھی، اتنا ہی نہیں انہوں نے علی گڑھ نمائش میں ہی کتابوں کی دکان بھی لگائی تھی۔

علی گڑھ مسلم یونیورستی شعبہ رابطہ عامہ کے ایسوسی ایٹ رکن انچارج پروفیسر راحت ابرار نے خصوصی گفتگو میں بتایا تھا۔ سرسید احمد خاں نے اس ادارے کے قیام کے لیے جو بھی ممکن طریقے ہو سکتے تھے وہ سب اپنائے اور انہوں نے 24 مئی 1875 میں ایک چھوٹے سے مدرسہ سے اس مہم کا آغاز کیا تھا جبکہ سنہ 1877 میں کالج کا سنگ بنیاد رکھا گیا حالانکہ سرسید کا انتقال سنہ 1898 میں ہوا تھا۔ اس کے 22 برس بعد سنہ 1920 میں مدرسے کو یونیورسٹی کا درجہ حاصل ہوا جو آج اپنی ایک سو سالہ تقریب منارہا ہے۔

مزید پڑھیں:'سر سید کی خدمات ناقابل فراموش'

سرسید احمد خاں کو آج پوری دنیا ان کے علمی اور فکری کارنامے کی وجہ سے خراج عقیدت پیش کر رہی ہے۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.