نئی دہلی: حیدرآباد کے رکن پارلیمنٹ اسد الدین اویسی نے دفعہ 370 کے سپریم کورٹ کے فیصلے کے ردعمل میں کہا کہ جس طرح سے 370 کو منسوخ کیا گیا وہ آئینی اخلاقیات کی خلاف ورزی ہے۔انہوں نے کہا کہ اس فیصلہ سے مرکزی حکومت کے فیصلے کو قانونی قرار دینے کے وسیع نتائج ہوسکتے ہیں۔
اویسی نے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ جموں و کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے، لیکن اٹوٹ انگ ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس کا یونین کے ساتھ کوئی الگ آئینی تعلق نہیں ہے۔ یہ آئینی رشتہ کشمیر کی آئین ساز اسمبلی کی تحلیل کے بعد مستقل ہو گیا تھا۔انہوں نے مزید کہا کہ مرکزی حکومت کے آرٹیکل 370 کے فیصلے سے سب سے زیادہ نقصان جموں کے ڈوگرہ اور لداخ کے بدھ مت کے پیروکار کا ہوگا،کیونکہ انہیں وہاں آبادیاتی تبدیلی کا سامنا کرنا پڑے گا۔
انہوں نے سپریم کورٹ کے بومائی فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ وفاقی آئین کے بنیادی ڈھانچے کا حصہ ہے۔ وفاقیت کا مطلب ہے کہ ریاست کو اپنی آواز ہے اور اس کی اہلیت کے علاقے میں اسے کام کرنے کی مکمل آزادی ہے۔ یہ کیسے ہے کہ پارلیمنٹ اسمبلی کی جگہ بولیں، یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ پارلیمنٹ ایسی قرارداد پاس کر سکے جو آئین میں اسمبلی سے پاس کرانی تھی۔
مزید پڑھیں:
واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے دفعہ 370 کی منسوخی کو جائز قرار دیتے ہوئے مشاہدہ کیا کہ جموں و کشمیر کو دفعہ 370 کی منسوخی کے تحت خصوصی حیثیت یا اختیارات حاصل نہیں تھے۔ جبکہ کورٹ نے 30 ستمبر 2024 تک اسمبلی الیکشن منعقد کرائے جانے اور فوراً سے پیشتر ریاستی درجہ بحال کیے جانے کی بھی ہدایت جاری کی ہے۔ تاہم کورٹ نے لداخ کو یونین ٹیریٹری بنائے جانے کو بھی جائز ٹھہرایا ہے۔