سرینگر: جموں و کشمیر پولیس نے دعویٰ کیا ہے کہ کشمیر کے سابق میرواعظ مولوی محمد فاروق کے قتل میں ملوث دو افراد کو سرینگر سے گرفتار کیا گیا ہے۔ پولیس کے مطابق سینٹرل بیورو آف انسوٹی گیشن (سی بی آئی) نے جاوید احمد بٹ اور ظہور احمد بٹ نامی دو افراد کو سرینگر سے حراست میں لیا ہے اور انہیں فوری طور دہلی منتقل کیا گیا ہے۔ یہ دونوں ملزمین 1990 سے لاپتہ تھے۔
میرواعظ محمد فاروق، جو موجودہ میرواعظ ڈاکٹر عمر فاروق کے والد تھے، کو مسلح افراد نے سرینگر کے نگین علاقے میں 21 مئی 1990 کی صبح انکی رہائش گاہ میں ہلاک کردیا تھا۔ اس ہلاکت کے خلاف سرینگر میں ہزاروں لوگوں نے احتجاج کیا۔ جلوس جنازہ کے دوران احتجاج کرنے والوں پر حول چوک میں سینٹرل ریزرو پولیس فورس نے گولیاں چلائی تھیں جس میں درجنوں افراد مارے گئے اور کئی گولیاں میرواعظ کے جسد خاکی میں بھی پیوست ہوئیں۔
سرینگر میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب ہوئے پولیس کی سراغ رساں ونگ کے اسپیشل ڈائریکٹر جنرل آر آر سوین نے کہا کہ میرواعظ کی ہلاکت کا کیس سی بی آئی کو سونپ دیا گیا تھا اور اس میں پانچ افراد کو نامزد کیا گیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ قتل کے بارے میں پولیس تھانہ نگین میں ایک کیس زیر نمبر 61 سال 1990 درج ہے۔ انہوں نے بتایا کہ کیس کا اصل مجرم حزب المجاہدین کا کمانڈر محمد عبداللہ بنگرو تھا جو ایک تصادم میں مارا گیا۔ ابھی تک صرف ایک ملزم محمد ایوب ڈار کو گرفتار کیا گیا تھا جس کے خلاف عدالت میں ایک طویل مقدمہ چلا ہے۔ ایوب ڈار کو ٹاڈا کی عدالت می مجرم قرار دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ دوسرا ملزم رحمان شگن تھا، جو ہلاک کیا جاچکا ہے۔ انہون نے بتایا کہ سی بی آئی نے ملزم کے خلاف چارج شیٹ دائر کی تھی جس کے بعد انہیں عمر قید کی سزا سنائی گئی۔
سوین نے کہا کہ جاوید بٹ عرف اجمل خان اور ظہور بٹ کو آج حراست میں لیا گیا ۔ ان کے مطابق انہیں سرینگر سے گرفتار کرکے دہلی بیجایا گیا ہے ۔ سوین نے تاہم یہ نہیں بتایا کہ دونوں ملزمین کو سرینگر کے کس مقام سے حراست میں لیا جاچکا ہے۔
سوین نے کہا کہ تحقیقات کے دوران معلوم ہوا کہ میرواعظ کو ہلاک کرنے کی سازش عبداللہ بنگرو نے رچائی تھی انکے مطابق بنگرو اور انکا ایک ساتھی ، جو دونوں حزب المجاہدین کے کمانڈر تھے، ہلاک کئے جاچکے ہیں جبکہ ایک اور ساتھی کو عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ انہوں نے کہا کہ جاوید بٹ اور ظہور بٹ کو اسٹیٹ انسوٹی گیشن ایجنسی نے حراست میں لیا۔ وہ دونوں گرفتاری سے بچ رہے تھے اور ان برسوں کے دوران پاکستان اور نیپال میں روپوش رہے۔ سوین نے کہا کہ دونوں ملزمین کو سی بی آئی کے حوالے کردیا گیا ہے ۔ انہون نے کہا کہ گرفتار ملزمین میں سے ایک ظہور احمد بٹ ہی میرواعظ محمد فاروق کے بیڈ روم میں داخل ہواتھا اور ان پر نزدیک سے گولیاں چلائی تھیں۔
مزید پڑھیں: Tribute to Mirwaiz Moulvi Farooq میرواعظ مولوی محمد فاروق کی برسی کی مناسبت سے اجلاس
کشمیر کی خون آشام تاریخ میں میرواعظ کی ہلاکت، ایک سیاہ ترین باب ہے۔ میرواعظ پائین سرینگر کی سب سے مضبوط جماعت عوامی مجلس عمل کے سربراہ تھے۔ یہ تنظیم 1964 میں سانحہ موئے مقدس کے ردعمل میں معرض وجود میں آئی تھی۔ موئے مقدس حضرت بل میں پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک تبرک ہے جسے چرایا گیا تھا اور اس کے خلاف کشمیر میں بڑے پیمانے پر مظاہرے ہوئے تھے۔ میرواعظ کی ہلاکت کے فوراً بعد سرینگر شہر اور وادی کے دیگر علاقوں میں بڑے پیمانے پر مظاہرے ہوئے۔ ہزاروں لوگوں پر مشتمل جلوس جنازہ جب پائین شہر کے حول علاقے میں پہنچا تو وہاں تعینات ایک بنکر میں سی آر پی ایف کے اہلکاروں نے اندھادھند گولیاں چلائیں جس سے درجنون افراد ہلاک ہوگئے۔ اہلکاروں نے تابوت کو نشانہ بنایا اور عینی شاہدین کے مطابق کئی گولیاں میرواعظ کے جسد خاکی میں بھی پیوست ہوئیں۔ حکام نے کہا کہ یہ افراد کراس فائرنگ میں مارے گئے کیونکہ جلوس جنازہ میں موجود عسکریت پسندوں نے سکیورٹی فورسز پر گولیاں چلائی تھیں جس کے ردعمل میں انہون نے جوابی فائرنگ کی۔
میرواعظ کی ہلاکت اور جلوس جنازہ پر فائرنگ کے بعد مرکزی حکومت نے گورنر جگموہن کو واپس طلب کرلیا۔ میرواعظ کی ہلاکت کے بعد ان کے اسکول میں زیر تعلیم فرزند مولانا محمد عمر فاروق کو ان کی جگہ کشمیر کا میرواعظ مقرر کیا گیا۔ بعد میں 1993 میں جب کُل جماعتی حریت کانفرنس کے نام سے علیحدگی پسند جماعتوں نے ایک سیاسی اتحاد قائم کیا تو میرواعظ اس کے پہلے چیئرمین بن گئے۔ میرواعظ کی جماعت 21 مئی کو یوم شہداء مناتی ہے اور سرینگر کے عیدگاہ میں جہاں ان کی تدفین عمل میں لائی گئی تھی، ایک عوامی اجتماع منعقد کرتی تھی جس کا سلسلہ 2019 تک جاری رہا۔ کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کے خاتمے کے بعد میرواعظ کی برسی پر عیدگاہ میں حکام نے کسی تقریب کے انعقاد کی اجازت نہیں دی ہے جبکہ میرواعظ تب سے مسلسل ان کی رہائش گاہ میں نظر بند ہیں۔
واضح رہے کہ 2011 میں میرواعظ کی برسی کے موقعے پر منعقدہ تقریب کے اختتام پر حریت کانفرنس کے ایک اور سرکردہ لیڈر عبدالغنی لون کو بھی عسکریت پسندوں نے ہلاک کیا تھا۔ لون نے ہلاکت سے قبل ایک تقریب میں الیکشن کے حوالے سے مثبت سوچ کا اظہار کیا تھا اور مسئلہ کشمیر کے حل کے سلسلے میں مزاکراتی عمل کی وکالت کی تھی۔