سرینگر: سنہ 2019 کے اگست مہینے کی 5 تاریخ کو مرکزی حکومت نے جموں و کشمیر کو دفعہ 370 کے تحت حاصل خصوصی حیثیت کو منسوخ کر دیا اور ریاست کو دو مرکزی زیر انتظام خطاؤں میں تقسیم کر دیا۔ جہاں سرکار نے اپنے اس فیصلے کو تاریخی قرار دیتے ہوئے جموں و کشمیر میں ترقی اور بہبودی کا ضامن ہونے کا دعویٰ کیا وہیں وادی کی تمام سیاسی جماعتوں نے اس قدم کو غیر آئینی قرار دیا۔ جس کے بعد کئی افراد اور سیاسی جماعت نے سپریم کورٹ کا رخ کیا وہیں عدالت نے تقریباً چار برس بعد گزشتہ مہینے کی 11 تاریخ کو معاملے پر اگست مہینے کی دو تاریخ سے سماعت کرنے کا فیصلہ لیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جہاں سپریم کورٹ کی اس بینچ کی صدارت چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ کر رہے ہیں وہیں جسٹس سنجے کشن کول، سنجیو کھنہ، بی آر گوائی اور سوریا کانت بھی اس بینچ میں شامل ہیں۔
سپریم کورٹ میں اس معاملے کے کئی پوائنٹس پر بحث ہونے کے امکان ہے۔ اس حوالے سے بات کرتے ہوئے ہائی کورٹ آف جموں و کشمیر اور لداخ کے سینئر ایڈوکیٹ سید ریاض خاور نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ "اس میں سب سے مثبت پہلو یہ ہے کہ سپریم کورٹ نے روزانہ سماعت شروع کر دی ہے اور ایک آئینی بینچ سن رہا ہے۔ اس بینچ کے تمام جج سپرم کورٹ کے سب سے سینئر ہیں اور سب کی باری آئے گی چیف جسٹس بننے کی۔ یہ ایک خوش آئند بات ہے۔ اس معاملے میں نیشنل کانفرنس، بار ایسوسیشن بھی فریق ہیں اور کئی وکلاء معاملے کا دفاع کرنے کے لیے یہاں سے جا رہے ہیں۔ دفاع سے مراد ہے کہ دفعہ 370 کی دوبارہ بحالی کے لیے کیونکہ یہ فیصلہ غیر آئینی تھا۔" اُن کا مزید کہنا تھا کہ"ہم کو عدالتوں پر بھروسہ رکھنا چاہیے۔ چار سال کا وقت گزر گیا لیکن ایسا پہلے بھی ہوا ہے کہ معاملے سپرم کورٹ کے سامنے چار - پانچ سال بعد آئے اور عدالت نے اہم فیصلے دیے۔
سنہ 1973 میں کیسوانند بھارتی معاملے کی سماعت سپریم کورٹ آف انڈیا کے 13 ججوں کی بنچ نے کی، جس سے یہ بھارتی قانونی تاریخ کا سب سے بڑا بنچ بن گیا تھا۔ عدالت نے ایک تاریخی 7:6 اکثریتی فیصلے میں آئین کے بنیادی ڈھانچے کا نظریہ پیش کیا، جس میں کہا گیا ہے کہ آئین کی بعض بنیادی خصوصیات، جیسے جمہوریت، سیکولرازم، وفاقیت، اور قانون کی حکمرانی میں پارلیمنٹ ترمیم نہیں کر سکتا۔ عدالت نے یہ بھی کہا کہ عدالتی نظرثانی کا اختیار آئین کے بنیادی ڈھانچے کا اٹوٹ حصہ ہے اور اسے پارلیمنٹ آئینی ترامیم کے ذریعے چھین نہیں سکتی۔ آئین دوبارہ نہیں لکھا جا سکتا، ترمیم کی جا سکتی ہے لیکی ہر جگہ نہیں۔ یہ معاملہ بھی کافی دیر بعد عدالت میں سنا گیا، اسی طرح بابری مسجد کا معاملے پر کافی دیر بعد سنوائی ہوئی لیکن پھر روزآنہ سماعت ہوئی اور فیصلہ بھی جلد آگیا۔"
عوام کے خدشات کی عدالتوں سے کتنے انصاف کی اُمید ہے جب ہر کسی پر دباؤ ہے؟ اس سوال کے جواب میں اُن کا کہنا تھا کہ "تمام جج اور وکیل سے نامزد ہوئے جج ایک حلف لیتے ہیں کہ وہ بیڈ باو، بری خواہش اور متعصب ہونے کئی بغیر اپنا فیصلہ سنائے گے۔ اس لیے یہ ادارہ تب تک ہی چلتا رہے گا جب تک عوام کا بھروسہ عدلیہ پر قیام رہے گا اور عدلیہ کو بھی اپنے آپ پر اعتماد ہو۔ آپ دیکھ رہے ہیں جب سے جسٹس چندرچوڑ چیف جسٹس بنے ہیں تب سے مودی سرکار کے فیصلوں کے خلاف کئی اہم فیصلے دیے گئے۔ منی پور کا معاملہ دیکھیں، انفوٹینمنٹ ڈائریکٹوریٹ کے ڈائریکٹر کے ایکسٹینشن کا معاملہ دیکھیں، دہلی سرکار کا معاملہ دیکھیں۔ ان سب فیصلوں کی وجہ سے مودی سرکار مشکل میں آگئی۔ "
اُن کا مزید کہنا تھا کہ "سپرم کورٹ آج کے فعال عدالت ہے۔ ہم کو نا امید نہیں ہونا چاہیے، ہم کو اُمید رکھنے چاہیے۔ دلچسپ بات ہے کہ سرکار نے عدالت میں دفعہ 370 کے بعد خطے کی صورتحال میں بہتری کے حوالے سے ایک افدویٹ بھی پیش کیا تھا لیکن عدالت نے واضح کیا کہ اس افداویت سے ہمارا کوئی لینا دینا نہیں ہے، ہم کو بس دیکھنا ہے کہ دفعہ 370 کی منسوخی کیسے کی گئی۔ آئینِ طور پر یہ غیر آئین طریقے سے۔ ہمارے کچھ کشمیری پنڈت بھائی بھی عدالت گئے ہیں اس دعویٰ کے ساتھ کی یہاں کے حالات بہتر ہوئے ہیں لیکن اس سے عدالت کی کارروائی پر کوئی فرق نہیں پڑےگا کیونکہ معاملہ امن و امان کا نہیں ہے بلکہ آئینِ و غیر آئینِ کا ہے۔" اسٹیٹ ہوڈ کے حوالے سے بات کرتے ہوئے، اُن کا کہنا تھا کہ "آئیں کے مطابق کسی بھی اسٹیٹ کو کم یا زیدہ اختیارات نہیں دیے جا سکتے، سب کو برابر ملتے ہیں۔ ہاں مرکزی زیر انتظام علاقوں میں ایسا ممکن ہے۔
یہ بھی پڑھیں: SC refuses to postpone Article 370 hearing: سپریم کورٹ نے دفعہ 370کی سماعت کو ملتوی کرنے سے کیا انکار
پونڈیچری اور جموں و کشمیر کو دہلی سے زیادہ اختیارات ہیں۔ یہ مثلا ہے کہ گھڑی کی سوئیاں پیچھے کی طرف نہیں مڑ سکتیں لیکن عدالتیں کئی بار گھڑی کی سوئی پیچھے کی طرف بھی گھما چکی ہیں۔ ایسے فیصلے صرف بھارت میں ہی نہیں بلکہ امریکہ، برطانیہ، یورپی اتحاد میں ایسے فیصلے سنائے گئے ہیں۔ اس وقت کے چیف جسٹس ٹی ایس ٹھاکر نے جوڈیشل اپوئٹمنٹ کمیٹی ایکٹ کو دو تہائی اکثریت ہونے کے باوجود کالعدم کر دیا۔ دفعہ 370 کی منسوخی کیسے کی کا سکتی ہے یہ دفعہ 370 میں واضح طور پر بیان کیا گیا ہے۔ اُن کا مزید کہنا تھا کہ "اس میں لکھا ہے کہ آئین ساز اسمبلی دفعہ 370 کی منسوخی کے حوالے سے سفارش پریذیڈنٹ کو بیجھے جس کے بعد پریذیڈنٹ اس کو منسوخ کر سکتا تھا لیکن وہ طریقہ انہونے اپنایا نہیں کیونکہ یہاں آئین ساز اسمبلی ختم ہوئی ہے 1957 میں۔ ریاستی اسمبلی کے پاس اختیار نہیں تھا کہ وہ دفعہ 370 کو منسوخ کریں۔ یہاں تو گورنر نے سفارش کی تھی دفعہ 370 کی منسوخی کے لیے۔ کیا وہ کر سکتا تھا؟ انہونے صحیح طریقہ ہی نہیں اپنایا۔ اس لیے عوام کو نا امید نہیں ہونا چاہیے اور عدالتوں پر اعتماد رکھنا چاہیے۔