شہر خاض کے کمانگر پورہ نوہٹہ سے تعلق رکھنے والے شبیر حسین نے اب تک 171 پوائنٹ خون عطیہ کے طور پیش کئے ہیں جو جموں و کشمیر میں ایک ریکارڈ ہے۔ انہوں نے 1980 سے خون عطیہ دینے کی شروعات کی جو اپنی مثال آپ ہے۔
خدمت خلق کے جذبے سے سرشار شبیر حسین کا خون 'او نگیٹیو' ہے جو کہ محال ہی پایا جاتا ہے۔ اگر اس گروپ میں کوئی مریض خون کی کمی میں مبتلا ہوتا ہے تو اسے حاصل کرنے میں کافی دشواریاں پیش آتی ہیں۔ تاہم اُن لوگوں یا ضرورتمندوں کے لئے یہ شخص کسی مسیحا سے کم نہیں۔
شبیر حسین خان کہتے ہیں کہ 'انہیں کئی ایسے واقعات یاد ہیں جب ان کے خون دینے سے زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا کئی مریضوں کی زندگی اللہ کے فضل و کرم سے بچ گئی اور جو خوشی انہیں اس وقت محسوس ہوئی وہ اسے کبھی نہیں بھول پائیں گے۔'
طبی سائنس آج تک خون کا نعم البدل ایجاد نہیں کر سکا ہے۔ اس لیے اگر کسی انسان کا خون بہہ جائے تو اس کی جان بچانے کے لیے دوسرے انسان کا خون ہی درکار رہتا ہے۔
شبیر کے خون عطیہ کرنے کے جذبے کو دیکھ کر اور اس سے تحریک پا کر بمنہ سرینگر کے رہنے والے ماسٹر غلام حسن میر بھی اب تک 80 پوائنٹ خون عطیہ کر چکے ہیں۔
اس کے جذبے کا اندازہ اس سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ انہوں نے بھی شبیر کی طرح ہی کورونا وائرس کی وبائی بیماری کے خوف کے باوجود لل دید اہسپتال میں درد زہ مبتلا ایک خاتون کی جان بچانے میں اپنا اہم کردار ادا کیا۔ تاہم ان رضاکاروں نے سرکار اور انتظامیہ کی جانب سے نظر انداز کرنے پر سخت ناراضگی کا اظہار کیا۔
بلڈ مین آف کشمیر کے نام سے مشہور شبیر حسین خان کی اگرچہ 3 بار اسٹیٹ ایوارڈ کے لیے سفارش کی گئی ہے۔ تاہم انہیں ہر بار نظر انداز کیا گیا۔ انہوں نے الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ صوبائی کمشنر کشمیر کی طرف سے ان کے ایوارڈ کے لیے کئی مرتبہ سفارش بھی کی گئی۔ تاہم جنرل ڈپارٹمنٹ نے ِان کے دستاویزات ہی غائب کر دیے۔