سرینگر: پولیس نے سرینگر میں پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی جانب سے کیے جانے والے احتجاج کو ناکام بناتے ہوئے پارٹی کے کئی لیڈروں کو حراست میں لیا جبکہ پارٹی کے صدر دفتر کو بند کردیا۔
پی ڈی پی کے متعدد لیڈر جو ریزیڈنسی روڑ پر واقع پارٹی ہیڈکوارٹر کی جانب جانے کی کوشش کر رہے، بھاری تعداد میں تعینات پولیس نفری نے انہیں آگے بڑھنے کی اجازت نہیں دی۔ اس موقعے پر نعرے بازی بھی کی گئی۔
پی ڈی پی کے لیڈر محمد یاسین بٹ نے صحافیوں کو بتایا کہ "آج ہم نے جہاں احتجاج رکھا تھا تاہم انتظامیہ نے اسے منعقد کرنے نہیں دیا ہمارے دفتر کو بھی بند کر دیا۔"
وہی جموں کشمیر کے لیفٹنینٹ گورنر منوج سنہا نے معاملے کی تحقیقات کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ "معاملے کی تحقیقات کا حکم دے دیا گیا ہے۔ سرکاری تحقیقات کی رپورٹ آنے کے بعد موضوع کاروائی کرے گی۔"
انہوں نے مزید دعویٰ کیا کہ جموں کشمیر انتظامیہ بے قصور عوام کی زندگیوں کی رکھوالی کے لیے کار بند ہے اور یقین دہانی کرتی ہے کہ کسی بھی قسم کی ناانصافی نہیں ہونے دیں گے۔"
پی ڈی پی کارکنان سوموار کو سرینگر کے حیدرپورہ علاقے میں ہوئے ایک تصادم کے خلاف احتجاج کرنے والے تھے جس میں چار افراد ہلاک کئے گئے۔ ہلاک شدگان میں سے تین افراد کے لواحقین نے سیکیورٹی فورسز پر الزام عائد کیا کہ انہوں نے انہیں فرضی تصادم میں ہلاک کیا جبکہ وہ عام شہری ہیں اور ان کا عسکریت پسندی کے ساتھ کوئی واسطہ نہیں ہے۔
حکام کا دعویٰ ہے کہ مارے گئے افراد میں حیدر نام کا ایک غیر ملکی عسکریت پسند تھا جبکہ ایک مقامی شخص مدثر گل اس عسکریت پسند کا اعانت کار تھا۔
پولیس کے مطابق ایک اور شخص محمد الطاف بٹ کراس فائرنگ میں مارا گیا حالانکہ اس کے اہل خانہ نے الزام لگایا ہے کہ انہیں ’انسانی ڈھال‘ کے طور استعمال کیا گیا اور بعد میں بے دردی کے ساتھ ہلاک کیا گیا۔
ایک اور شہری عامر ماگرے اس عمارت میں قائم ایک دفتر میں کام کررہا تھا جہاں یہ تصادم پیش آیا۔ ضلع رام بن کے سنگلدان علاقے سے تعلق رکھنے والے عامر کے والد نے ماضی میں لشکر طیبہ کے ایک عسکریت پسند کو پتھر مار کر ہلاک کیا ہے جس پر انہیں فوج اور اس وقت کی ریاستی حکومت نے بہادری کی اسناد دیں اور ان کی رہائش گاہ پر پولیس کا پہرہ لگا دیا۔ حکام نے دعویٰ کیا ہے کہ عامر ماگرے عسکریت پسندوں کا کارکن تھا۔
یہ بھی پڑھیں :
ذرائع کے مطابق پولیس نے پی ڈی پی کے صدر دفتر کے ارد گرد کاردار تار لگاکر اسے سیل کردیا اور کسی بھی کارکن یا صحافی کو دفتر کی جانب بڑھنے کی اجازت نہیں دی جارہی ہے۔