ETV Bharat / state

Sanctions in kashmir on 13 july موجودہ حکومت 13 جولائی کو مذہب کے ترازو میں تول رہی ہے، عمر عبداللہ - کشمیر یوم شہداء

قریب ایک صدی قبل 1931کو ڈوگرہ شاہی کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنے والے 22کشمیریوں - جنہیں آج ہی کے دن یعنی 13جولائی 1931کو - ہری سنگھ کے فوجیوں نے گولیاں مار کر شہید کر دیا تھا۔

موجودہ حکومت 13 جولائی کو مذہب کے ترازو میں تولتی ہے، عمر عبداللہ
موجودہ حکومت 13 جولائی کو مذہب کے ترازو میں تولتی ہے، عمر عبداللہ
author img

By

Published : Jul 13, 2023, 4:32 PM IST

موجودہ حکومت 13 جولائی کو مذہب کے ترازو میں تول رہی ہے، عمر عبداللہ

سرینگر (جموں و کشمیر) : جموں کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ اور نیشنل کانفرنس کے نائب صدر عمر عبداللہ نے بی جے پی حکومت پر الزام عائد کیا ہے کہ ’’انکی حکومت کے فیصلے مذہب کی بنیادوں پر کئے جا رہے ہیں۔‘‘ عمر عبداللہ نے پارٹی کے صدر دفتر، نوائے صبح، میں پارٹی لیڈران و کارکنان سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’’13 جولائی 1931 کو جو لوگ قربان ہوئے تھے وہ مسلمان تھے اور غیر مسلمان حکمرانوں کے خلاف احتجاج کر رہے تھے اور موجودہ حکمرانوں کو یہ بات ہضم نہیں ہو رہی ہے۔‘‘

یاد رہے کہ نیشنل کانفرنس نے 13 جولائی کی یاد میں پارٹی دفتر پر تعزیتی اجلاس کا انعقاد کیا تھا جس کی عمر عبداللہ نے صدارت کی۔ سابق وزیر اعلیٰ نے پارٹی دفتر پر خطاب کے دوران کہا: ’’اگر 1931 میں شخصی راج کا حاکم ایک مسلمان ہوتا اور شہادت دینے والے غیر مسلمان ہوتے تو آج صبح لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا ان (شہیدوں کی تصاویر) پر پھول نچھاور کر رہے ہوتے۔‘‘

ہہ بھی پڑھیں: 13 July Martyrs’ Day مزار شہداء جانے والی سڑکوں پر سکیورٹی اہلکار تعینات

عمر عبد اللہ نے حکمران جماعت کی سخت تنقید کرتے ہوئے موجودہ حکومت کو سوچ اور اصولوں کی قدر نہیں ہے اور اس بات کی بھی قدر نہیں کہ 13 جولائی 1931 کی لڑائی شخصی راج کے خلاف تھی نہ کہ کسی مذہب کے خلاف، لیکن یہ موجودہ حکومت اس تاریخی واقعے کو مذہب کے ترازو میں تول رہی ہے کیونکہ وہاں مزار شہداء میں کشمیری مسلمانوں کی قبریں ہیں۔ عمر عبداللہ نے ان باتوں کا اظہار 13 جولائی یعنی ’’یوم شہداء‘‘ کے تناظر میں کیا، جب انکے مطابق انتظامیہ نے انکو دفتر آنے کے لئے سیکورٹی بھی دستیاب نہیں کی تھی۔

مزید پڑھیں: Mehbooba House arrest?: یوم شہدا پر نظر بند رکھا گیا، محبوبہ مفتی کا دعویٰ

غور طلب ہے کہ 13 جولائی سنہ 1931 کو سرینگر کے سنٹرل جیل کے باہر اس وقت کے ڈوگرہ حکمران مہاراجہ ہری سنگھ کے خلاف مظاہرے کئے گئے تھے جس دوران مظاہرین پر مہاراجہ کی فوج نے اندھا دھند گولیاں چلائیں جس میں 22 کشمیری مسلمان شہید ہوئے تھے۔ گو کہ گزستہ دہائیوں سے 13 جولائی کو کشمیر میں ’’یوم شہداء‘‘ کے طور پر یاد کیا جاتا ہے اور اس روز سرکاری تعطیل بھی ہوتی تھی البتہ 5 اگست سنہ 2019 کو بی جی پی حکومت نے اس تعطیل کو منسوخ کیا اور یوم شہداء کی تقریب منانے کا سلسلہ ختم کیا۔

یہ بھی پڑھیں: Kashmir Martyrs Day: یوم شہداء کشمیر 13 جولائی 1931 پر ایک نظر

دفعہ 370 کی منسوخی سے قبل تمام حکومتیں اور مین اسٹریم سیاسی جماعتوں کے لیڈران - ڈاؤن ٹاؤن سرینگر کے خواجہ بازار علاقے میں واقع - مزار شہداء پر حاضری دیکر شہداء کی قبروں کی گلباری انجام دیتے اور انہیں خراج عقیدت پیش کرتے تھے، تاہم علیحدگی پسند تنظیموں کے لیڈران کو نظر بند کرکے پابندیاں عائد کرکے مزار شہداء پر جانے سے روک دیا جاتا تھا۔ لیکن سنہ 2019 میں دفعہ 370 کی منسوخی کے بعد ایل جی انتظامیہ نے اب مین سٹریم سیاسی جماعتوں کے لیڈران پر بھی مزار شہداء پر جانے اور خراج عقیدت پیش کرنے پر پابندی عائد کر دی ہے۔

مزید پڑھیں: Omar Abdullah's unusual walk to office عمر عبداللہ گھر سے پارٹی دفتر تک پیدل چلے، پولیس پر کی تنقید

موجودہ حکومت 13 جولائی کو مذہب کے ترازو میں تول رہی ہے، عمر عبداللہ

سرینگر (جموں و کشمیر) : جموں کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ اور نیشنل کانفرنس کے نائب صدر عمر عبداللہ نے بی جے پی حکومت پر الزام عائد کیا ہے کہ ’’انکی حکومت کے فیصلے مذہب کی بنیادوں پر کئے جا رہے ہیں۔‘‘ عمر عبداللہ نے پارٹی کے صدر دفتر، نوائے صبح، میں پارٹی لیڈران و کارکنان سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’’13 جولائی 1931 کو جو لوگ قربان ہوئے تھے وہ مسلمان تھے اور غیر مسلمان حکمرانوں کے خلاف احتجاج کر رہے تھے اور موجودہ حکمرانوں کو یہ بات ہضم نہیں ہو رہی ہے۔‘‘

یاد رہے کہ نیشنل کانفرنس نے 13 جولائی کی یاد میں پارٹی دفتر پر تعزیتی اجلاس کا انعقاد کیا تھا جس کی عمر عبداللہ نے صدارت کی۔ سابق وزیر اعلیٰ نے پارٹی دفتر پر خطاب کے دوران کہا: ’’اگر 1931 میں شخصی راج کا حاکم ایک مسلمان ہوتا اور شہادت دینے والے غیر مسلمان ہوتے تو آج صبح لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا ان (شہیدوں کی تصاویر) پر پھول نچھاور کر رہے ہوتے۔‘‘

ہہ بھی پڑھیں: 13 July Martyrs’ Day مزار شہداء جانے والی سڑکوں پر سکیورٹی اہلکار تعینات

عمر عبد اللہ نے حکمران جماعت کی سخت تنقید کرتے ہوئے موجودہ حکومت کو سوچ اور اصولوں کی قدر نہیں ہے اور اس بات کی بھی قدر نہیں کہ 13 جولائی 1931 کی لڑائی شخصی راج کے خلاف تھی نہ کہ کسی مذہب کے خلاف، لیکن یہ موجودہ حکومت اس تاریخی واقعے کو مذہب کے ترازو میں تول رہی ہے کیونکہ وہاں مزار شہداء میں کشمیری مسلمانوں کی قبریں ہیں۔ عمر عبداللہ نے ان باتوں کا اظہار 13 جولائی یعنی ’’یوم شہداء‘‘ کے تناظر میں کیا، جب انکے مطابق انتظامیہ نے انکو دفتر آنے کے لئے سیکورٹی بھی دستیاب نہیں کی تھی۔

مزید پڑھیں: Mehbooba House arrest?: یوم شہدا پر نظر بند رکھا گیا، محبوبہ مفتی کا دعویٰ

غور طلب ہے کہ 13 جولائی سنہ 1931 کو سرینگر کے سنٹرل جیل کے باہر اس وقت کے ڈوگرہ حکمران مہاراجہ ہری سنگھ کے خلاف مظاہرے کئے گئے تھے جس دوران مظاہرین پر مہاراجہ کی فوج نے اندھا دھند گولیاں چلائیں جس میں 22 کشمیری مسلمان شہید ہوئے تھے۔ گو کہ گزستہ دہائیوں سے 13 جولائی کو کشمیر میں ’’یوم شہداء‘‘ کے طور پر یاد کیا جاتا ہے اور اس روز سرکاری تعطیل بھی ہوتی تھی البتہ 5 اگست سنہ 2019 کو بی جی پی حکومت نے اس تعطیل کو منسوخ کیا اور یوم شہداء کی تقریب منانے کا سلسلہ ختم کیا۔

یہ بھی پڑھیں: Kashmir Martyrs Day: یوم شہداء کشمیر 13 جولائی 1931 پر ایک نظر

دفعہ 370 کی منسوخی سے قبل تمام حکومتیں اور مین اسٹریم سیاسی جماعتوں کے لیڈران - ڈاؤن ٹاؤن سرینگر کے خواجہ بازار علاقے میں واقع - مزار شہداء پر حاضری دیکر شہداء کی قبروں کی گلباری انجام دیتے اور انہیں خراج عقیدت پیش کرتے تھے، تاہم علیحدگی پسند تنظیموں کے لیڈران کو نظر بند کرکے پابندیاں عائد کرکے مزار شہداء پر جانے سے روک دیا جاتا تھا۔ لیکن سنہ 2019 میں دفعہ 370 کی منسوخی کے بعد ایل جی انتظامیہ نے اب مین سٹریم سیاسی جماعتوں کے لیڈران پر بھی مزار شہداء پر جانے اور خراج عقیدت پیش کرنے پر پابندی عائد کر دی ہے۔

مزید پڑھیں: Omar Abdullah's unusual walk to office عمر عبداللہ گھر سے پارٹی دفتر تک پیدل چلے، پولیس پر کی تنقید

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.