تاہم وادی کے دیگر اضلاع بالخصوص ضلع بڈگام میں عزاداروں نے کورونا وائرس سے متعلق گائیڈ لائنز، جن کے تحت جلوسوں کو برآمد کرنے اور بڑے مذہبی اجتماعات کے انعقاد پر پابندی عائد ہے، کو توڑتے ہوئے درجنوں جگہوں پر چھوٹے بڑے ماتمی جلوس نکالے۔
انتظامیہ نے بظاہر گزشتہ چند روز کے دوران پیش آنے والے واقعات کو دیکھتے ہوئے عزاداروں کو ماتمی جلوس برآمد کرنے سے روکنے کی کوششیں نہیں کیں۔
واضح رہے کہ ہفتے کو پولیس نے سری نگر کے مضافاتی علاقہ بمنہ میں جلوس نکالنے والے عزاداروں پر پیلٹ بندوقوں اور آنسو گیس کے شیلوں کا استعمال کیا جس کے نتیجے میں متعدد عزادار زخمی ہوئے۔ چند عزادار ایسے ہیں جن کی آنکھوں میں پیلٹ لگے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: محرم الحرام اور یومِ عاشورہ کی فضیلت
قبل ازیں چھ محرم کو پولیس نے ضلع بڈگام کے زوری گنڈ نامی علاقے میں ماتمی جلوس نکالنے والے عزاداروں کو منتشر کرنے کے لئے آنسو گیس کی شیلنگ اور ہوائی فائرنگ کی۔
ان دونوں جگہوں پر طاقت کے استعمال کی وجہ سے جموں و کشمیر پولیس شدید تنقید کی زد میں آگئی ہے۔ تاہم پولیس کا کہنا ہے کہ محرم کے جلوسوں کے متعلق سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے اور کورونا وائرس سے متعلق گائیڈ لائنز کی خلاف ورزی کو روکنے کے لئے ہی اس کے اہلکاروں کو طاقت کا استعمال کرنا پڑا ہے۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ کشمیر کی سب سے بڑی شیعہ تنظیم 'انجمن شرعی شیعیان جموں و کشمیر' سمیت دیگر چند تنظیموں نے امسال محرم کے ماتمی جلوس برآمد نہ کرنے کا اعلان کیا تھا۔ لیکن عزاداروں نے یہ کہتے ہوئے ان فیصلوں کو ماننے سے انکار کیا ہے کہ ماتمی جلوس منسوخ کرنے کے اعلانات سے قبل انہیں اعتماد میں نہیں لیا گیا ہے۔
انتظامیہ کی جانب سے اتوار کو ایک بار پھر شہر کے مختلف پولیس تھانوں کے تحت آنے والے علاقوں میں سخت پابندیاں نافذ کی گئیں جن کے ذریعے ماتمی جلوس کی برآمدگی ناممکن بنا دی گئی۔
بتا دیں کہ وادی کشمیر میں سری نگر کے گرو بازار اور آبی گذر (تاریخی لال چوک) علاقوں سے برآمد ہونے والے 8 ویں اور 10 ویں محرم الحرام کے تاریخی ماتمی جلوسوں پر جموں و کشمیر میں ملی ٹینسی کے آغاز یعنی سنہ 1989 سے پابندی عائد ہے۔
ان دو تاریخی ماتمی جلوسوں پر سنہ 1989 میں اُس وقت کے ریاستی گورنر جگ موہن نے پابندی عائد کردی تھی۔ اُس وقت مرکز میں مرحوم مفتی محمد سعید وزیر داخلہ کے عہدے پر فائز تھے۔
سنہ 1989 سے قبل جہاں 8 ویں محرم کا ماتمی جلوس سری نگر کے گرو بازار علاقے سے برآمد ہوکر حیدریہ ہال ڈل گیٹ میں اختتام پذیر ہوتا تھا وہیں 10 ویں محرم کا جلوس لال چوک کے آبی گذر علاقے سے برآمد ہوکر علی پارک جڈی بل میں اختتام پذیر ہوتا تھا۔
تاہم اتوار کو سری نگر میں یوم عاشورا کے مرکزی ماتمی جلوس اور دیگر کچھ جلوسوں کو چھوڑ کر وادی کے بیشتر شیعہ آبادی والے علاقوں سے درجنوں چھوٹے بڑے ماتمی جلوس برآمد ہوئے جن میں عزاداروں نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔
ماتمی جلوسوں میں شبیہ علم، ذوالجناح اور شبیہ تابوت شامل تھے جبکہ عزادار نوحہ خوانی اور سینہ کوبی کر رہے تھے۔ جلوسوں کے راستوں پر جگہ جگہ نیاز کا اہتمام کیا گیا تھا جبکہ خون کا عطیہ کے کیمپ لگائے گئے تھے۔ جو عزادار ماسکس پہن کر نہیں آئے تھے ان کو ماسکس فراہم کی جا رہی تھیں۔
وسطی کشمیر کے شیعہ اکثریتی قصبہ بڈگام سے موصولہ ایک رپورٹ کے مطابق قصبے میں تاریخی ماتمی جلوس میرگنڈ سے برآمد ہوا، جو اپنے روایتی ڈی سی آفس روڑ سے ہوتے ہوئے اتوار کی شام دیر گئے بڈگام میں اختتام پذیر ہوگا۔
اس تاریخی ماتمی جلوس میں شامل عزاداروں کو نوحہ خوانی اور سینہ کوبی کرتے ہوئے دیکھا گیا۔ تاہم اس ماتمی جلوس میں اس بار ذوالجناح شامل نہیں تھا جس کی وجہ یہ ہے کہ اس کے کسٹوڈین 'انجمن شرعی شیعیان' نے ماتمی جلوسوں کی معطلی کا اعلان کر رکھا تھا۔