سونہ مرگ: نتن گڈکری نے ایشیا کی سب سے طویل سرنگ زوجیلا کی پیش رفت کا جائزہ لیتے ہوئے اسے ایک تاریخی کارنامہ قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ اس سے لداخ خطہ بیرونی دنیا کے ساتھ مزید گہرائی کے ساتھ جڑ جائے گا۔ نتن گڈکری دو روزہ دورے پر جموں و کشمیر آئے ہوئے ہیں جہاں وہ پارلیمانی کمیٹی کو خطے میں شاہراہوں کی تعمیر سے متعلق تفصیلات دیں گے۔ کل وزیر موصوف، مرکزی وزیر مملکت ڈاکٹر جیتندر سنگھ کے ہمراہ سرینگر جموں قومی شاہراہ کا بھی دورہ کریں گے۔
اس موقعے پر صحافیوں سے بات کرتے ہوئے گڈکری کا کہنا تھا کہ "اس سرنگ کے بننے سے جموں و کشمیر کی ٹورازم کو فروغ ملے گا اور دو سے تین گنا بڑھے گا، اس سے مزید روزگار کے مواقع بھی بڑھیں گے۔ اُن کا مزید کہنا تھا کہ "ٹنل پر لاگت 12000 کروڑ سے زیادہ تھی تاہم ٹکنالوجی کے استعمال کی وجہ سے 5000 کروڑ روپے کم ہوئے۔ اس کے علاوہ یہ بھارت کی پہلی ٹنل ہے جو اتنی اونچائی پر واقع ہے۔" واضح رہے کہ اگرچہ اس ٹنل کا اعلان سنہ 2005 میں ہوا تھا تاہم بعد میں پروجیکٹ کافی تاخیر سے شروع ہوا۔ جس کمپنی کو اس کا کام ملا تھا وہ خسارے میں چلی گئی اور کام تقریباً دو برس تک بند رہا، جس کے بعد مرکزی حکومت سے اس پروجیکٹ میں کچھ تبدیلیاں کر کے سنہ 2020 میں دوبارہ سے کام شروع کر کے ایم آئی ایل کو اس کا ٹینڈر دیا گیا۔
یہ بھی پڑھیں:
زوجیلا ٹنل ایک تاریخی کارنامہ
لیہہ ہائی وے پر زوجیلا ٹنل 13 کلو میٹر طویل ہے اور اس ٹنل پر کافی عرصے سے کام چل رہا تھا۔ اس ٹنل سے عوام کو آمد ورفت، حمل و نقل میں کافی سہولت حاصل ہوگی۔ سرینگر لداخ شاہراہ ماضی میں کم و بیش چھ ماہ تک بند رہتی تھی اور موسم سرما شروع ہوتے ہی اس پر گاڑیوں کی نقل و حمل بند کی جاتی تھی لیکن اس برس اس شاہراہ پر دونوں اطراف سے برف ہتانے کا کام پہلے ہی شروع کیا گیا تھا جس کی وجہ سے اسے ریکارڈ مدت میں آمدورفت کے لیے کھول دیا گیا۔
ذرائع کے مطابق یہ شاہراہ دفاعی اعتبار سے انتہائی حساس ہے۔ لداخ میں جہاں دنیا کا سب سے اونچا میدان جنگ سیاچن گلیشیر موجود ہے وہی چین کے ساتھ گلوان وادی میں ہوئی معرکہ آرائی کے بعد یہ خطہ دفاعی طور سب سے زیادہ اہمیت کا حامل ہوگیا ہے۔ اس خطے میں پاکستان کے ساتھ ملنے والی حد متارکہ (لائن آف کنٹرول ) کا بیشتر حصہ بھی گزرتا ہے۔