ETV Bharat / state

Mohammad Abbas Ansari passes away علیحدگی پسند اتحاد حریت کانفرس کے سابق چیئرمین مولانا عباس انصاری کا انتقال

معروف شعیہ لیڑر اورعلیحدگی پسند اتحاد کل جماعتی حریت کانفرس کے سابق چیئرمین مولانا عباس انصاری آج سرینگر میں اپنی رہائش گاہ میں طویل علالت کے بعد انتقال کرگئے۔ Mohammad Abbas Ansari passes away

Mohammad Abbas Ansari passes away
علیحدگی پسند تنظیم حریت کانفرس کے سابق چیئرمین مولانا عباس انصاری کا انتقال
author img

By

Published : Oct 25, 2022, 9:55 AM IST

Updated : Oct 25, 2022, 12:56 PM IST

سرینگر: جموں و کشمیر کے معروف عالم دین اور سیاسی رہنما مولانا عباس انصاری کا ان کی رہائش گاہ پر انتقال ہوگیا ہے۔ مولانا عباس انصاری سرینگر میں نواکدل میں واقع اپنی رہائش گاہ پر آج صبح انتقال کرگئے۔ وہ چھیاسی برس کے تھے۔ مرحوم گزشتہ کئی مہینوں سے کافی علیل تھے۔ Mohammad Abbas Ansari passes away

مولانا عباس انصاری انجمن اتحادالمسلمین تنظیم کے بانی تھے جو 1993 میں بنائی گئی کل جماعتی حریت کانفرنس کی بنیادی اکائیوں میں شامل تھی۔ انہیں سنہ 2003 میں علیحدگی پسند تنظیم حریت کانفرس کا چئیرمین منتخب کیا گیا تھا۔

مولانا عباس انصاری حریت کانفرنس کے ان لیڈروں میں شامل تھے جو شدت پسندانہ اپروچ نہیں رکھتے تھے اور بھارت کے ساتھ مزاکرات کے طرفدار تھے چنانچہ انہی کی زیر قیادت حریت کانفرنس کے ایک دھڑے کے لیڈروں نے 2004 میں اٹل بہاری واجپئی کی قیادت میں مرکزی حکومت کے ساتھ مزاکرات کے کئی دور کئے تھے۔ یہ مزاکرات اسوقت کے نائب وزیر اعظم اور وزیر داخلہ لال کرشن اڈوانی کے ساتھ ہوئے تھے۔ اس بات چیت میں موجودہ حریت کانفرنس کے نظر بند چئیرمین میر واعظ عمر فاروق، بلال غنی لون، پروفیسر عبدالغنی بٹ اور فضل الحق قریشی شامل تھے۔ اس بات چیت کا اہتمام کرنے میں وزیر اعظم کے کشمیر پر صلاح کار اور بھارتی خفیہ ایجسنی را کے سابق سربراہ امر جیت سنگھ دلت نے اہم کردار ادا کیا تھا۔ دلت نے بعد میں ایک کتاب لکھی جس کے سرورق پر حریت اور وزیر اعظم واجپئی کے درمیان ملاقات کی تصویر تھی۔

حریت کانفرنس اگرچہ 2003 میں ہی دو حصوں میں تقسیم ہوگئی تھی اور سید علی گیلانی کے دھڑے نے الزام عائد کیا تھا کہ اس میانہ رو دھڑے نے 2002 کے اسمبلی انتخابات میں پراکسی امیدوار بھی کھڑے کئے تھے اور الیکشن مخالف مہم بھی نہیں چلائی تھی تاہم مرکزی حکومت کے ساتھ مزاکرات کے بعد گیلانی کا دھڑہ عوامی سطح یہ تاثر دینے لگا کہ یہ لیڈر مرکزی حکومت کے ساتھ کشمیر پر سودا بازی کرچکے ہیں۔ خانقاہ سوختہ میں وہ جس مکان میں رہائش پزیر تھے وہ انہوں نے جموں و کشمیر کے سابق وزیر اعظم مرحوم بخشی غلام محمد سے خریدا تھا۔

عباس انصاری اس نازک دور میں حریت کے سربراہ تھے لیکن بعد میں انکی افادیت کم ہوگئی چنانچہ میرواعظ عمر فاروق کو دوبارہ حریت کے میانہ رو دھڑے کا سربراہ بنایا گیا۔ اس دوران عباس انصاری مختلف عارضوں میں مبتلا ہوئے اور انکی سیاسی سرگرمیاں بتدریج کم ہوتی گئیں۔ انہوں نے بعد میں اپنے فرزند مسرور عباس انصاری کو متعارف کیا اور وہی انکی جگہ سیاسی اور مزہبی سرگرمیوں میں حصہ لیتے رہے۔ مولانا عباس انصاری، پائین شہر کے خانقاہ سوختہ علاقے میں رہائش پزیر تھے۔ کئی برسوں تک انہیں سرکاری سیکیورٹی فراہم کی گئی تھی لیکن 5 اگست 2019 کو ریاست جموں و کشمیر کی نیم خودمختارانہ آئینی حیثیت کے خاتمے کے مرکزی حکومت کے فیصلے کے بعد انکی سیکیورٹی واپس لی گئی۔

عباس انصاری نوجوانی سے ہی کشمیر کی سیاست میں کافی سرگرم تھے۔ وہ شیعہ فرقے کے ایک پرجوش لیڈر کی حیثیت سے 1965 میں موئے مقدس کی تحریک کے دوران متعارف ہوئے تھے۔ اگرچہ ابتدائی طور انکا حلقہ اثر صرف سرینگر اور بڈگام کی شیعہ آبادی کے ایک حلقے میں ہی تھا تاہم 1987 میں مسلم متحدہ محاذ کے قیام کے بعد وہ پورے کشمیر میں متعارف ہوئے اور انکی تنظیم مسلم متحدہ محاذ کی ایک اکائی بن گئی۔ کشمیر میں 1989 میں مسلح علیحدگی پسند تحریک شروع ہونے کے بعد عباس انصاری حریت کانفرنس میں شامل ہوئے اور انکی جماعت کو حریت کی تاسیسی اکائی تسلیم کیا گیا جسکی وجہ سے وہ ہمیشہ حریت کی مجلس عاملہ کے رکن بنے۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ وہ حریت کانفرنس کے واحد سربراہ ہیں جو اقلیتی شیعہ فرقے سے تعلق رکھتے تھے۔ قابل ذکر ہے کہ عباس انصاری کے دور میں ہی حریت کانفرنس نے بھارت کی وزارت داخلہ کے ساتھ مزاکرات کئے اور بعد میں سرینگر مظفر آباد سڑک پر سفر کیا اور پاکستانی حکام کے ساتھ اسلام آباد اور مظفر آباد میں مزاکرات کئے۔

کئی سیاسی رہنماؤں نے عباس انصاری کی رحلت پر صدمے کا اظہار کیا ہے۔ سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے ایک ٹویٹ میں لکھا کہ عباس انصاری نے اپنی زندگی امن اور اسلام کیلئے وقف کی تھی۔ انہون نے کہا کہ کہ مرحوم اتحاد کے علمبردار تھے اور انہوں نے اپنے پیچھے ایک ایسی وراثت چھوڑی ہے جو کشمیر کے لوگوں کے زہنوں اور دلوں پر ثبت رہے گی۔ کشمیر ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے نائب سربراہ غلام نبی شاہین نے بھی عباس انصاری کو خراج عقیدت پیش کیا ہے۔

مولانا انصاری کے قریبی رشتہ داروں کے مطابق ان کی نماز جنازہ آج دو پہر کے بعد ان کے آبائی قبرستان بابا مزار زڈی بل میں ادا کی جائے گئی۔ مولانا عباس انصاری گزشتہ ماہ سرینگر کے صورہ ہسپتال میں زیر علاج تھے، جہاں نیشنل کانفرنس کے صدر فاروق عبداللہ ان کی خبری پرسی کے لیے گئے تھے۔

سرینگر: جموں و کشمیر کے معروف عالم دین اور سیاسی رہنما مولانا عباس انصاری کا ان کی رہائش گاہ پر انتقال ہوگیا ہے۔ مولانا عباس انصاری سرینگر میں نواکدل میں واقع اپنی رہائش گاہ پر آج صبح انتقال کرگئے۔ وہ چھیاسی برس کے تھے۔ مرحوم گزشتہ کئی مہینوں سے کافی علیل تھے۔ Mohammad Abbas Ansari passes away

مولانا عباس انصاری انجمن اتحادالمسلمین تنظیم کے بانی تھے جو 1993 میں بنائی گئی کل جماعتی حریت کانفرنس کی بنیادی اکائیوں میں شامل تھی۔ انہیں سنہ 2003 میں علیحدگی پسند تنظیم حریت کانفرس کا چئیرمین منتخب کیا گیا تھا۔

مولانا عباس انصاری حریت کانفرنس کے ان لیڈروں میں شامل تھے جو شدت پسندانہ اپروچ نہیں رکھتے تھے اور بھارت کے ساتھ مزاکرات کے طرفدار تھے چنانچہ انہی کی زیر قیادت حریت کانفرنس کے ایک دھڑے کے لیڈروں نے 2004 میں اٹل بہاری واجپئی کی قیادت میں مرکزی حکومت کے ساتھ مزاکرات کے کئی دور کئے تھے۔ یہ مزاکرات اسوقت کے نائب وزیر اعظم اور وزیر داخلہ لال کرشن اڈوانی کے ساتھ ہوئے تھے۔ اس بات چیت میں موجودہ حریت کانفرنس کے نظر بند چئیرمین میر واعظ عمر فاروق، بلال غنی لون، پروفیسر عبدالغنی بٹ اور فضل الحق قریشی شامل تھے۔ اس بات چیت کا اہتمام کرنے میں وزیر اعظم کے کشمیر پر صلاح کار اور بھارتی خفیہ ایجسنی را کے سابق سربراہ امر جیت سنگھ دلت نے اہم کردار ادا کیا تھا۔ دلت نے بعد میں ایک کتاب لکھی جس کے سرورق پر حریت اور وزیر اعظم واجپئی کے درمیان ملاقات کی تصویر تھی۔

حریت کانفرنس اگرچہ 2003 میں ہی دو حصوں میں تقسیم ہوگئی تھی اور سید علی گیلانی کے دھڑے نے الزام عائد کیا تھا کہ اس میانہ رو دھڑے نے 2002 کے اسمبلی انتخابات میں پراکسی امیدوار بھی کھڑے کئے تھے اور الیکشن مخالف مہم بھی نہیں چلائی تھی تاہم مرکزی حکومت کے ساتھ مزاکرات کے بعد گیلانی کا دھڑہ عوامی سطح یہ تاثر دینے لگا کہ یہ لیڈر مرکزی حکومت کے ساتھ کشمیر پر سودا بازی کرچکے ہیں۔ خانقاہ سوختہ میں وہ جس مکان میں رہائش پزیر تھے وہ انہوں نے جموں و کشمیر کے سابق وزیر اعظم مرحوم بخشی غلام محمد سے خریدا تھا۔

عباس انصاری اس نازک دور میں حریت کے سربراہ تھے لیکن بعد میں انکی افادیت کم ہوگئی چنانچہ میرواعظ عمر فاروق کو دوبارہ حریت کے میانہ رو دھڑے کا سربراہ بنایا گیا۔ اس دوران عباس انصاری مختلف عارضوں میں مبتلا ہوئے اور انکی سیاسی سرگرمیاں بتدریج کم ہوتی گئیں۔ انہوں نے بعد میں اپنے فرزند مسرور عباس انصاری کو متعارف کیا اور وہی انکی جگہ سیاسی اور مزہبی سرگرمیوں میں حصہ لیتے رہے۔ مولانا عباس انصاری، پائین شہر کے خانقاہ سوختہ علاقے میں رہائش پزیر تھے۔ کئی برسوں تک انہیں سرکاری سیکیورٹی فراہم کی گئی تھی لیکن 5 اگست 2019 کو ریاست جموں و کشمیر کی نیم خودمختارانہ آئینی حیثیت کے خاتمے کے مرکزی حکومت کے فیصلے کے بعد انکی سیکیورٹی واپس لی گئی۔

عباس انصاری نوجوانی سے ہی کشمیر کی سیاست میں کافی سرگرم تھے۔ وہ شیعہ فرقے کے ایک پرجوش لیڈر کی حیثیت سے 1965 میں موئے مقدس کی تحریک کے دوران متعارف ہوئے تھے۔ اگرچہ ابتدائی طور انکا حلقہ اثر صرف سرینگر اور بڈگام کی شیعہ آبادی کے ایک حلقے میں ہی تھا تاہم 1987 میں مسلم متحدہ محاذ کے قیام کے بعد وہ پورے کشمیر میں متعارف ہوئے اور انکی تنظیم مسلم متحدہ محاذ کی ایک اکائی بن گئی۔ کشمیر میں 1989 میں مسلح علیحدگی پسند تحریک شروع ہونے کے بعد عباس انصاری حریت کانفرنس میں شامل ہوئے اور انکی جماعت کو حریت کی تاسیسی اکائی تسلیم کیا گیا جسکی وجہ سے وہ ہمیشہ حریت کی مجلس عاملہ کے رکن بنے۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ وہ حریت کانفرنس کے واحد سربراہ ہیں جو اقلیتی شیعہ فرقے سے تعلق رکھتے تھے۔ قابل ذکر ہے کہ عباس انصاری کے دور میں ہی حریت کانفرنس نے بھارت کی وزارت داخلہ کے ساتھ مزاکرات کئے اور بعد میں سرینگر مظفر آباد سڑک پر سفر کیا اور پاکستانی حکام کے ساتھ اسلام آباد اور مظفر آباد میں مزاکرات کئے۔

کئی سیاسی رہنماؤں نے عباس انصاری کی رحلت پر صدمے کا اظہار کیا ہے۔ سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے ایک ٹویٹ میں لکھا کہ عباس انصاری نے اپنی زندگی امن اور اسلام کیلئے وقف کی تھی۔ انہون نے کہا کہ کہ مرحوم اتحاد کے علمبردار تھے اور انہوں نے اپنے پیچھے ایک ایسی وراثت چھوڑی ہے جو کشمیر کے لوگوں کے زہنوں اور دلوں پر ثبت رہے گی۔ کشمیر ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے نائب سربراہ غلام نبی شاہین نے بھی عباس انصاری کو خراج عقیدت پیش کیا ہے۔

مولانا انصاری کے قریبی رشتہ داروں کے مطابق ان کی نماز جنازہ آج دو پہر کے بعد ان کے آبائی قبرستان بابا مزار زڈی بل میں ادا کی جائے گئی۔ مولانا عباس انصاری گزشتہ ماہ سرینگر کے صورہ ہسپتال میں زیر علاج تھے، جہاں نیشنل کانفرنس کے صدر فاروق عبداللہ ان کی خبری پرسی کے لیے گئے تھے۔

Last Updated : Oct 25, 2022, 12:56 PM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.