پریس کونسل کے سیکرٹری کو لکھے خط میں محبوبہ مفتی کا کہنا ہے کہ "مجھے یقین ہے کہ آپ کو معلوم ہے کہ اس ماہ کے شروع میں کشمیر میں کئی صحافیوں کے گھروں پر پولیس نے چھاپے مارے۔ نجی الیکٹرانک آلات جیسے فون، لیپ ٹاپ، اے ٹی ایم کارڈ، غیر قانونی طور پر ضبط کیے گئے۔ اس کے علاوہ ان کی شریک حیات کے پاسپورٹ بھی ضبط کیے گئے۔ یہ وہ خوفناک تجربات ہیں جو جموں و کشمیر میں صحافی برادری بھارتی حکومت کی جانب سے دفعہ 370 کی منسوخی کے بعد محسوس کررہی ہے۔"
اپنے خط میں پریس کی آزادی کا حوالہ دیتے ہوئے انہون لکھا ہے کہ "جمہوری نظام میں، ایک آزاد اور خودمختار پریس حکومتی اداروں کے لیے ضروری ہے کہ وہ شفاف طریقے سے اپنے شہریوں کے لیے جوابدہی کے ساتھ کام کریں۔ ہم نے دیکھا ہے کہ بھارتی آئین میں اظہار رائے کی آزادی جیسے بنیادی حقوق پر تیزی سے حملے ہورہے ہیں، خاص طور پر گزشتہ دو برسوں میں صحافیوں کو ہراساں کیا جارہا ہے۔"
"مبینہ طور پر 23 صحافیوں کو ای سی ایل (ایگزٹ کنٹرول لسٹ) میں ڈال دیا گیا ہے۔ یہاں تک کہ وہ طلباء جو دنیا کی اعلیٰ یونیورسٹیوں کے نامور کالجوں میں وظائف حاصل کرتے ہیں، انہیں وہاں تعلیم حاصل کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ حال ہی میں ایک طالب علم کو جہاز سے اتار کر گرفتار کیا گیا، بعد میں چھوڑ دیا گیا۔"
اُن کا مزید کہنا تھا کہ "اس کے علاوہ، بڑی تعداد میں صحافیوں کو یا تو دھمکی دی جاتی ہے یا ان پر یو اے پی اے یا بغاوت کے قانون کے تحت الزامات عائد کیے جاتے ہیں، صرف اس لیے کہ ان کی جموں و کشمیر پر رپورٹنگ حکمرانی کے من مطابق نہیں ہورہی ہے۔ اقتدار کو سچ کی اطلاع دینا ہر گزرتے دن کے ساتھ مجرمانہ ہورہا ہے۔"
اُن کا کہنا ہے کہ وہ مانتی ہیں کہ جموں و کشمیر میں کام کرنے اور رپورٹنگ کرنے والے صحافی دنیا کے بہادروں میں شامل ہیں، خاص طور پر ایسے وقت میں جب بھارتی میڈیا کا ایک بڑا حصہ مرکزی حکومت کا پروپیگنڈا توسیع بن چکا ہے۔ "وہ نامواقف ماحول جس میں، بار بار کرفیو، انکاؤنٹر، ہارٹلز اور دیگر منفی سیکورٹی حالات کے ساتھ کام کرتے ہیں اس نے ان کے عزم کو کمزور نہیں کیا ہے تاکہ یہ یقینی بنایا جاسکے کہ سچ ایک جانی نقصان نہیں بنتا۔"
- مزید پڑھیں: 'عسکریت پسندوں کے ساتھ رابطے کے بہانے کشمیریوں کی توہین کی جا رہی ہے'
- مرکزی حکومت کے خلاف متحد ہونا ہوگا: محبوبہ مفتی
- بارہمولہ: لوگ علیحدگی پسندوں کے کھیل کو سمجھ چکے ہیں: ڈی پی پانڈے
پریس کونسل آف انڈیا سے مطالبہ کرتے ہوئے انہوں نے لکھا ہے کہ "امید تھی کہ پریس کونسل آف انڈیا ان بڑے پیمانے پر رپورٹ ہونے والے واقعات کا ازخود نوٹ لے گی لیکن ایسا لگتا ہے کہ عدالتوں سمیت کسی بھی واچ ڈاگ فورم نے جموں وکشمیر میں پیدا ہونے والے دردناک حالات میں کوئی دلچسپی نہیں لی، مداخلت تو دور کی بات ہے۔ اس لیے یہ مجھ پر لازم بنتا ہے کہ آپ پر زور دیں کہ آپ حقائق کی تلاش کرنے والی ٹیم جموں و کشمیر بھیجیں، تاکہ ان دعوؤں کی آزادانہ طور پر تصدیق کی جاسکے اور اصلاحی کارروائی کی جاسکے۔"