سرینگر: کشمیر کے ایک اعلیٰ پایہ کے شاعر اور ادیب غلام محمد شاہ المعروف مشتاق کشمیری انتقال کرگئے ہیں۔ گزشتہ کافی عرصے سے علیل ہونے کی وجہ سے انکی ادبی سرگرمیاں محدود ہوگئی تھی۔ انہوں نے سرینگر کے صدر اسپتال میں آخری سانس لی جہاں وہ کئی دنوں سے داخل کئے گئے تھے۔
مشتاق کشمیری اردو اور کشمیری زبان کے ہردل عزیز شاعر تھے۔ وہ انتہائی سادہ زندگی گزارتے تھے ۔ وہ اصل میں سرینگر کے خانیار علاقے کے رہائشی تھے لیکن گزشتہ تین دہائیوں سے وہ شہر کے مضافاتی علاقے احمد نگر بچھ پورہ میں رہائش پزیر تھے۔
مشتاق کشمیری کی کئی تصنیفات منظر عام پر آئی ہیں جن میں صور اسرافیل اور شور محشر قابل ذکر ہیں۔ مشتاق کشمیری 1990 کی دہائی کے اوائل میں اپنے فرزند احمد کی ہلاکت کے بعد کافی دلبرداشتہ تھے۔
مشتاق کشمیری کے اہل خانہ نے اُن کے انتقال کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ "وہ کافی عرصے سے بیمار رہے اور آج صبح سرینگر کے ایس ایم ايج ایس ہسپتال میں آخری سانس لی۔"
اُن کا مزید کہنا تھا کہ"بعد نماز جمعہ اُن کا جنازہ سعیدہ کدل علاقے میں واقع اُن کی رہائش گاہ پر پڑھے جانے کے بعد اُن کو آبائی مقبرہ واقع خانیار میں دفن کیا جائے گا۔"
اُن کے انتقال پر سماج کے تمام طبقہ جات سے وابستہ افراد نے تعزیت پیش کی اور سوگوار کنبے کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا۔
بتا دیںکہ 1936 میں سرینگر کے کاؤ محلہ، خانیار میں ایک متوسط گھرانے میں پیدا ہوئے، شاعر کی زندگی ہنگامہ خیز اور "بے سکون" رہی ہے۔ مشتاق جموں و کشمیر جماعت اسلامی کے رکن بھی تھے اور سنہ 1965 کے بعد کئی بار جیلوں میں قید بھی رہے۔ وہ محکمہ شیپ ہسنبڈری کی پبلشٹی ونگ کے ملازم کی حیثیت سے سبکدوش ہوئے تھے لیکن دوران ملازمت انکا ادبی اور نظریاتی سفر جاری رہا۔ کشمیر میں سینکڑوں افراد ایسے تھے جنہیں مشتاق کشمیری کی کئی غزلیں اور نظمیں زبانی یاد تھیں۔ کہتے ہیں کہ کہ 1979 میں انکا کافی کلام نذر آتش ہوا تھا لیکن وادی کے کئی افراد نے انکے ساتھ رابطہ کرکے وہ کلام دوبارہ جمع کرنے میں انکی مددکی۔
یہ بھی پڑھیں : Urdu Poet Khalid Abidi Passes Away: اردو شاعر وادیب خالد عابدی کا انتقال
کشمیر کے ہم عصر شاعر مشتاق کشمیری کو "مضبوط مذہبی جھکاؤ رکھنے والا اصلاح پسند" سمجھتے ہیں۔ ان کی پہلی کتاب، شور محشر (قیامت کے دن کا شور) جون 1970 میں شائع ہوئی تھی۔ وہ زیادہ تر کشمیری میں لکھتے تھے لیکن کبھی کبھار اردو میں بھی قابل قدر شاعری کرتے تھے۔ مقامی اخبارات ندائے مشرق، کشمیر عظمیٰ اور آفاق مین انکا کلام شائع ہوتا تھا۔ ۔ کشمیری کی تحریروں میں مذہب کے تناظر میں لکھے گئے سماجی مسائل پر ایک بہت بڑا ذخیرہ شامل ہے۔ وہ کشمیر میں ہنگامہ آرائی اور قتل و غارت کے بارے میں کئی نظموں کے ساتھ عصری مسائل کے بارے میں بھی لکھتے تھے۔ ماضی میں گرلز کالج سے متعلق انکی ایک نظم زبان زد عام تھی۔ قرآن کے تئیں مسلمانوں کی بے رخی پر مبنی انکی نظم ’’قرآن کی فریاد‘‘ جب پڑھی جاتی تھی تو سامعین اشک بار ہوا کرتے تھے۔
مشتاق کشمیری چند برس قبل پاکستان منتقل ہوگئے تھے جہاں انہوں نے کافی عرصے تک قیام کیا لیکن وطن عزیز کی یاد نے انہیں پاکستان میں مستقل طور رہائش پزیر نہیں ہونے دیا۔ انکے ایک رشتہ دار نے بتایا کہ وطن واپسی کے بعد وہ کم و بیش گوشہ نشین ہوگئے تھے جس کیلئے انکی عمر اور صحت کا بڑا عمل دخل تھا۔