ETV Bharat / state

نوجوان ہیروئن اور براؤن شوگر کے نشے میں مبتلا ہو رہے ہیں

منشیات کا نشہ ایک ایسا دیمک ہے جو سکون حاصل کرنے کے دھوکے سے شروع تو کیا جاتا ہے لیکن یہ انسان کو تباہی کی دہلیز تک لا کھڑا کر دیتا ہے۔

Manshiyat
منشیات
author img

By

Published : Jul 26, 2021, 8:20 PM IST

گزشتہ دو برس کے کورونا دور میں وادی کشمیر کے نوجوانوں میں منشیات کا استعمال بڑھا ہی نہی ہے بلکہ جانکاروں کی مانیں تو ہیروئن کا کاروبار ایک صنعت کی شکل اختیار کرنے کو تیار ہے۔ اور آئے روز یہ سننے کو مل رہا ہے کہ فلاں جگہ سے فلاں منشیات فروش گرفتار کیا گیا۔

منشیات کے عادی افراد کی تعداد میں ہو رہے اضافے کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ حالت بگڑنے پر یا گھر والوں کی جانب سے نشے کی لت چھڑانے کی کوشش میں ہسپتال لائے جانے والے نشہ بازوں کی تعداد میں بھی زبردست اضافہ ہوتے دیکھا جا رہا ہے۔

نوجوان منشیات میں مبتلا

سرینگر کے ایک ہسپتال میں نشے کے عادی لوگوں کے علاج کے لیے مختص شعبے کے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ برس کورونا کی وبائی بیماری پھوٹ پڑنے کے بعد سے 3538 منشیات کے عادی افراد کے داخلے ہو چکے ہیں اور ان میں سے 40 فیصد ایسے افراد ہیں جو کہ کورونا لاک ڈاؤن کے عرصے کے دوران پہلی مرتبہ منشیات کی لت میں مبتلا ہو گئے ہیں۔

منشیات کا نشہ ایک ایسا دیمک ہے جو سکون حاصل کرنے کے دھوکے سے شروع تو کیا جاتا ہے لیکن یہ انسان کو تباہی کی دہلیز تک لا کھڑا کر دیتا ہے۔ نشہ کرنا صرف سماج میں عیش پرستوں میں عام نہیں ہے بلکہ ہر طبقے کے نوجوان اس میں مبتلا ہو رہے ہیں۔ یہاں تک معصوم بچے بھی نشے کو فیشن کے طور پر استعمال کرنے لگے ہیں۔

جی ایم سی سرینگر کے ڈرگ ڈی ایڈیکشن سنٹر کے انچارج ڈاکٹر یاسر راتھر کہتے ہیں کہ پہلے پہل سنٹر میں 10 سے 15 منشیات کے مریض علاج کی خاطر آتے تھے لیکن گزشتہ تین برس کے دوران اس میں کہیں زیادہ اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے اور اب روزانہ کی بنیاد پر او پی ڈی میں اوسطا 50 سے 70 منشیات میں مبتلا مریضوں کا تشخص عمل میں لایا جاتا ہے جو کہ نہ صرف قابل تشویش ہے بلکہ قابل فکر بھی۔

منشیات کے عادی رہ چکے ایک نوجوان لڑکے نے بتایا کہ وہ دو برس سے ایک دوست کے زریعے منشیات کی لت کا شکار ہو گیا تھا۔ اب منشیات چھڑانے میں کامیابی تو ملی لیکن ابھی زندگی پٹری پر مکمل طور پر واپس نہیں آ سکی ہے۔ انہوں نے کہا کہ نشہ ایک خطرناک چیز ہے ایک بار لت لگی تو زندگی تباہ۔

یہ بھی پڑھیں:

عسکری مخالف کارروائی: جون ماہ سے اب تک 51 ہلاکتیں

ماہرین کا کہنا ہے وادی کشمیر میں کچھ عرصے سے ہیروئن اور براؤن شوگر آسانی سے دستیاب ہونے لگا ہے جس کی وجہ سے نوجوان ان نشہ آور چیزوں کا استعمال انجیکشن کی صورت میں زیادہ کرنے لگے ہیں۔ جو کہ نہ صرف جان لیوا ہے بلکہ ایک خطرناک نشہ بھی ہے۔ وہیں اس نشے کی لت کو چھڑانا آسان نہیں ہوتا۔

منشیات کی بدعت کا قلع قمع کرنے کے لیے سخت ترین قوانین نافذ کرنے کے علاوہ ان اسباب پر روک لگانے کی ازحد ضروت ہے جو منشیات کے پھیلاؤ میں اہم رول ادا کر رہے ہیں۔

گزشتہ دو برس کے کورونا دور میں وادی کشمیر کے نوجوانوں میں منشیات کا استعمال بڑھا ہی نہی ہے بلکہ جانکاروں کی مانیں تو ہیروئن کا کاروبار ایک صنعت کی شکل اختیار کرنے کو تیار ہے۔ اور آئے روز یہ سننے کو مل رہا ہے کہ فلاں جگہ سے فلاں منشیات فروش گرفتار کیا گیا۔

منشیات کے عادی افراد کی تعداد میں ہو رہے اضافے کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ حالت بگڑنے پر یا گھر والوں کی جانب سے نشے کی لت چھڑانے کی کوشش میں ہسپتال لائے جانے والے نشہ بازوں کی تعداد میں بھی زبردست اضافہ ہوتے دیکھا جا رہا ہے۔

نوجوان منشیات میں مبتلا

سرینگر کے ایک ہسپتال میں نشے کے عادی لوگوں کے علاج کے لیے مختص شعبے کے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ برس کورونا کی وبائی بیماری پھوٹ پڑنے کے بعد سے 3538 منشیات کے عادی افراد کے داخلے ہو چکے ہیں اور ان میں سے 40 فیصد ایسے افراد ہیں جو کہ کورونا لاک ڈاؤن کے عرصے کے دوران پہلی مرتبہ منشیات کی لت میں مبتلا ہو گئے ہیں۔

منشیات کا نشہ ایک ایسا دیمک ہے جو سکون حاصل کرنے کے دھوکے سے شروع تو کیا جاتا ہے لیکن یہ انسان کو تباہی کی دہلیز تک لا کھڑا کر دیتا ہے۔ نشہ کرنا صرف سماج میں عیش پرستوں میں عام نہیں ہے بلکہ ہر طبقے کے نوجوان اس میں مبتلا ہو رہے ہیں۔ یہاں تک معصوم بچے بھی نشے کو فیشن کے طور پر استعمال کرنے لگے ہیں۔

جی ایم سی سرینگر کے ڈرگ ڈی ایڈیکشن سنٹر کے انچارج ڈاکٹر یاسر راتھر کہتے ہیں کہ پہلے پہل سنٹر میں 10 سے 15 منشیات کے مریض علاج کی خاطر آتے تھے لیکن گزشتہ تین برس کے دوران اس میں کہیں زیادہ اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے اور اب روزانہ کی بنیاد پر او پی ڈی میں اوسطا 50 سے 70 منشیات میں مبتلا مریضوں کا تشخص عمل میں لایا جاتا ہے جو کہ نہ صرف قابل تشویش ہے بلکہ قابل فکر بھی۔

منشیات کے عادی رہ چکے ایک نوجوان لڑکے نے بتایا کہ وہ دو برس سے ایک دوست کے زریعے منشیات کی لت کا شکار ہو گیا تھا۔ اب منشیات چھڑانے میں کامیابی تو ملی لیکن ابھی زندگی پٹری پر مکمل طور پر واپس نہیں آ سکی ہے۔ انہوں نے کہا کہ نشہ ایک خطرناک چیز ہے ایک بار لت لگی تو زندگی تباہ۔

یہ بھی پڑھیں:

عسکری مخالف کارروائی: جون ماہ سے اب تک 51 ہلاکتیں

ماہرین کا کہنا ہے وادی کشمیر میں کچھ عرصے سے ہیروئن اور براؤن شوگر آسانی سے دستیاب ہونے لگا ہے جس کی وجہ سے نوجوان ان نشہ آور چیزوں کا استعمال انجیکشن کی صورت میں زیادہ کرنے لگے ہیں۔ جو کہ نہ صرف جان لیوا ہے بلکہ ایک خطرناک نشہ بھی ہے۔ وہیں اس نشے کی لت کو چھڑانا آسان نہیں ہوتا۔

منشیات کی بدعت کا قلع قمع کرنے کے لیے سخت ترین قوانین نافذ کرنے کے علاوہ ان اسباب پر روک لگانے کی ازحد ضروت ہے جو منشیات کے پھیلاؤ میں اہم رول ادا کر رہے ہیں۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.