سرینگر: بھارتیہ جنتا پارٹی اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کا اتحاد ٹوٹ جانے کے بعد 20 جون 2018 سے جموں وکشمیر میں گورنر راج نافذ العمل ہے۔ پانچ برس قبل جموں و کشمیر کی وزیر اعلی محبوبہ مفتی کو اپنے عہدے سے اس وقت استعفی دینا پڑا، جب ان کی اتحادی پارٹی بی جے پی نے حکومت سے اپنی حمایت واپس لے لی، تب سے یہاں کے عوام جہموری حکومت سے محروم ہیں۔ ایسے میں مرکزی حکومت کی یقین دہانیوں کے باوجود ابھی بھی یہاں اسمبلی انتخابات ممکن نہیں ہو پائے ہیں۔
جموں و کشمیر کی تقریباً سبھی سیاسی جماعتوں کے اسلمبی انتخابات منعقد کرانے کے مطالبے کے باوجود الیکشن کمیشن امسال بھی اسمبلی انتخابات کرانے کے موڈ میں نظر نہیں آ رہا ہے، کیونکہ حال ہی چیف الیکٹورل افسر نے یہ اشارہ دیا کہ پنچایتی، بلدیاتی اور پارلیمانی انتخابات کرائے جا سکتے ہیں۔ البتہ انہوں نے اسمبلی انتخابات سے متعلق کوئی بھی بات نہیں کی، جس یہ صاف ہوگیا ہے کہ مستقل قریب میں جموں و کشمیر میں اسمبلی انتخابات کرانے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ ایسے میں الیکشن کمیشن کے اس ردعمل سے بی جے پی کو چھوڑ یہاں کی سبھی اپوزیشن جماعتیں بے حد ناراض اور مایوس نظر آرہی ہیں۔ جموں و کشمیر میں پنچایتی انتخابات آخری مرتبہ نومبر دسمبر 2018 اور بلدیاتی انتخابات اکتوبر نومبر 2018 میں ہی کرائے گئے تھے۔ پارلیمانی انتخابات سمیت بلدیاتی اور پنچایتی انتخابات کے انعقاد کے لیے تمام تیاریاں شروع کر دی گئی ہیں۔
پیپلز کانفرنس کے نائب صدر سید بشارت بخاری کہتے ہیں کہ اگر پارلیمانی، بلدیاتی اور پنچایتی انتخابات کے لیے جموں و کشمیر میں حالات اور موسم سازگار ہیں تو اسمبلی انتخابات کے لیے کیوں نہیں؟ انہوں نے الیکشن کمیشن آف انڈیا سے سوالیہ انداز میں پوچھا کہ اگر پارلیمانی اور بلدیاتی انتخابات کرانے کا بگل بجا دیا گیا ہے تو اسمبلی انتخابات کروانےکے لیے الیکشن کمیشن خاموش کیوں ہے؟
گزشتہ برس حد بندی کا عمل مکمل ہونے اور الکیشن کمیشن کی جانب سے انتخابات کےحوالے سے اٹھائے گئے چند اقدامات سے یہاں کی مین اسٹریم سیاسی جماعتیں پُر امید تھیں کہ امسال اسملبی انتخابات کرائے جاسکتے ہیں۔ لیکن چیف الیکٹورل افسر کے حالیہ بیان نے پھر سے یہاں کی اپوزیشن جماعتوں کو مایوس کردیا ہے۔ وہیں بی جے پی جموں و کشمیر یونٹ بھی مایوس نظر آ رہی ہے کیونکہ وہ بھی انتخابات کے انعقاد کا مطالبہ کر رہی ہے۔ بی جے پی سنئیر رہنما الطاف ٹھاکر کہتے ہیں کہ پارٹی بھی چاہتی ہے کہ جموں و کشمیر میں جلد از جلد اسلمبی انتخابات عمل میں لائے جائیں تاکہ بغیر کسی تاخیر عوامی حکومت تشکیل دی جائے۔
مزید پڑھیں: Assembly Elections In JK جموں وکشمیر میں عوامی حکومت دور کی بات،سید بشارت بخاری
یہ پہلی مرتبہ نہیں ہے کہ جموں وکشمیر میں 5 برس سے صدر راج نافذ ہے۔ اس سے قبل یعنی 1989سے 1996 کے درمیان 6 برس کا طویل مدتی گورنر راج بھی یہاں کے لوگ دیکھ چکے ہیں۔ بہرحال آنے والے وقت میں یہ دیکھنا بڑا دلچسپ ہوگا کہ 4 برس قبل یوٹی بنے جموں وکشمیر میں پہلے اسمبلی انتخابات منعقد کرانے کے لیے مرکزی سرکار تاریخوں کا اعلان کب کرتی ہے۔