نیشنل کانفرنس کے صدر اور رکن پارلیمان ڈاکٹر فاروق عبداللہ کا کہنا ہے کہ پاکستان سے بات چیت کے بغیر کشمیر میں قیام امن ناممکن ہے۔
انہوں نے کہا کہ دفعہ 370 اور 35 اے کے خاتمے کے بعد وادی کشمیر میں عسکریت پسندی اس قدر بڑھ گئی ہے کہ اب اس کو ختم کرنا مشکل ہے۔ فاروق عبداللہ نے یہ باتیں پیر کو ضلع پونچھ کے منڈی علاقے میں ایک عوامی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہیں۔
انہوں نے کہا: ’’جب تک پاکستان کے ساتھ بات چیت نہیں ہو گی اور بات چیت کے ذریعے اس مسئلے (مسئلہ کشمیر) کو حل نہیں کیا جاتا تب تک امن نہیں آئے گا۔ آپ مجھ سے یہ لکھ کر لے لیجئے۔‘‘
ان کا مزید کہنا تھا: ’’آپ کریں جتنی جنگیں کرنی ہیں چار تو پہلے ہی کر چکے ہیں، اب اگر ایک اور جنگ ہوئی تو بڑی خطرناک ہو گی۔ دونوں کے پاس ایٹم بم ہیں۔ مریں گے ہم ہی، مہربانی کر کے ایسی کسی بھی صورتحال کو ٹالنے کے لئے بات چیت کریں۔‘‘
سابق وزیر اعلیٰ ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے کہا کہ جب ان کی جماعت یا لیڈران پاکستان سے مذاکرات کی بات کرتے ہیں تو انہیں پاکستانی کہا جاتا ہے۔
انہوں نے کہا: ’’ہمیں تو یہ کب سے پاکستانی کہتے آئے ہیں، یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ جب یہاں ملی ٹنسی شروع ہوئی تو سب سے زیادہ قربانیاں کس نے دیں؟ نیشنل کانفرنس کے وکروں اور وزرا نے۔‘‘
نیشنل کانفرنس کے صدر نے دعویٰ کیا کہ دفعہ 370 اور 35 اے کے خاتمے کے بعد وادی کشمیر میں ملی ٹنسی اس قدر بڑھ گئی ہے کہ اب اس کو ختم کرنا مشکل ہے۔ انہوں نے کہا: ’’بی جے پی نے دفعہ 370 اور 35 اے ختم کرنے کے موقع پر کہا تھا کہ اب جموں و کشمیر میں ملی ٹنسی ختم ہو جائے گی۔ آج امیت شاہ جی سری نگر میں ہیں، میں ان سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ کیا ملی ٹنسی ختم ہوئی؟‘‘ انہوں نے مزید کہا: ’’حقیقت تو یہ ہے کہ ملی ٹنسی اتنی بڑھ گئی ہے کہ اس کو ختم کرنا مشکل ہے۔ جو بے ایمانی آپ نے ہمارے ساتھ کی ہے اس کا خمیازہ آپ لوگ بھگتیں گے ہی۔ جب تک آپ یہاں کے مسلم، ہندو، سکھ، بودھ اور عیسائی کے ساتھ انصاف نہیں کریں گے تب تک یہاں امن نہیں آئے گا۔‘‘
نیشنل کانفرنس کے اس جلسے میں پارٹی جنرل سیکریٹری علی محمد ساگر، معاون جنرل سکریٹری ڈاکٹر شیخ مصطفےٰ کمال، صوبائی صدر جموں ایڈوکیٹ رتن لعل گپتا، سینئر لیڈران خالد نجیب سہروردی، سید مشتاق بخاری، اعجاز جان، ہرچند سنگھ خالصا اور اسرار خان کے علاوہ دیگر لیڈران اور عہدیداران بھی موجود تھے۔
مزید پڑھیں: ہم کشمیریوں سے بات کرنا چاہتے ہیں: امیت شاہ
فاروق عبداللہ نے نئی دلی اور جموں و کشمیر کے درمیان اعتماد کی بحالی کو وقت کی اہم ضرورت قرار دیتے ہوئے کہا کہ جب تک یہ اعتماد بحال نہیں ہوگا اس وقت تک یہاں کے حالات ٹھیک نہیں ہو سکتے۔ انہوں نے کہا: ’’رواں برس24 جون کو جب وزیر اعظم ہند نے جموں و کشمیر کی کُل جماعتی میٹنگ طلب کی تھی میں نے اُسی وقت وزیر عظم سے کہا کہ ’آپ کو ہم پر اعتماد نہیں اور ہم کو آپ پر اعتماد نہیں‘ اور جب تک اس اعتماد کو بحال نہیں کیا جاتا اُس وقت تک ریاست میں کبھی بھی امن نہیں آئے گا اور وزیر اعظم نے اس بات کو تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ ’دل کی دوری اور دلی کی دوری‘ کو ختم کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘
انہوں نے مزید کہا: ’’لیکن آج اتنے ماہ ہونے کے بعد بھی اس سمت میں کوئی اقدام نہیں اٹھایا گیا، نہ دل کی دوری ختم ہوسکی اور نہ دلی کی دوری کم ہوئی۔ یہاں منتری بھیجے گئے لیکن وہ صرف اور صرف دکھاوا ہی ثابت ہوا اور ان وزرا کا یہاں آنے سے زمینی سطح پر کوئی فرق نہیں پڑا۔‘‘
مزید پڑھیں؛ امیت شاہ کشمیری نوجوانوں کو گمراہ کر رہے ہیں: کانگریس لیڈر
فاروق عبداللہ نے عوام سے اپنے حقوق کے لئے جدوجہد جاری رکھنے کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ مشکلیں بہت آئیں گی، یہ اللہ کی طرف سے ہمارے لئے امتحان ہے اور ہمیں اس میں ثابت قدم رہنے کی ضرورت ہے اسی صورت میں ہم سرخرو ہو سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ دفعہ 370 اور 35 اے ہمیں مشروط الحاق کی بنیاد پر ملے تھے اور ملک کی سب سے بڑی عدالت نے دو بار دفعہ 370 کو مستقل قرار دیا ہے اور کہا کہ یہ دفعات عارضی نہیں ہے لیکن بی جے پی نے اپنے ایجنڈے کے تحت اس کو ختم کر دیا اور نتیجہ سب کے سامنے ہے، جس امن کے قیام کے دعوے کئے جارہے تھے وہ کہیں موجود نہیں ہے۔
عوام کو تقسیمی عناصر سے ہوشیار کرتے ہوئے فاروق عبداللہ نے کہا کہ ہر علاقے میں ایسے افواہ باز رکھے گئے ہیں جو نفرتیں پھیلانے کا کام کررہے ہیں۔ انہوں نے کہا: ’’یہ عناصر ہند کو مسلمان سے، گوجر کو پہاڑی سے، شیعہ کو سنی سے، بریلوی کو دیوبندی سے الگ کر رہے ہیں، ایسی سازشوں کا مل کر مقابلہ کرنا انتہائی ضروری ہے۔ نیشنل کانفرنس نے کبھی نفرت کی سیاست نہیں کی اور نہ کبھی نفرت کا ساتھ دیا، ہم سب کو ساتھ مل کر چلنا ہوگا اور فرقہ پرست عناصر کی سازشوں کو ناکام بنانا ہوگا۔‘‘
یو این آئی