سرینگر:نیشنل کانفرنس کے نائب صدر عمر عبداللہ نے اتوار کے روز کہا کہ جگہ جگہ بڑے بڑے جھنڈے لہرانے سے لوگوں کے دل نہیں جاسکتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ لوگوں کے دل جیتنے کیلئے اُن کے جذبات کو سمجھنا ہوگا، اُن کے مشکلات کو حل کرنا ہوگا، اُن کی تکالیف کو کم کرنا ہوگا اور اُن کے احساسات و جذبات کی قدر کرنی ہوگی، آپ لوگوں کو سالہاسال تک جیلوں میں بند رکھ کر عام لوگوں کے دل نہیں جیت سکتے ہیں۔ ان باتوں کا اظہار نیشنل کانفرنس نائب صدر عمر عبداللہ نے پارٹی ورکروں کیساتھ اپنی رابطہ مہم کو جاری رکھتے ہوئے آج ضلع کپواڑہ کے حلقہ انتخاب لنگیٹ کے یک روزہ کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
عمر عبداللہ نے اپنے خطاب میں کہا کہ ”مرکزی حکومت نے دفعہ370کے بارے میں بہت سارا پروپیگنڈا کیا جو بالآخر جھوٹ اور فریب ثابت ہوا۔ پوری دنیا کو بتایا گیا تھا کہ جموں وکشمیر میں دفعہ 370 روزگار میں رکاوٹ ہے، رشوت اور کورپشن کی جڑ ہے، بندوق اسی دفعہ کی وجہ سے ہے، علیحدگی پسند لوگ بھی دفعہ 370 کی بدولت ہی ہیں اور غربت اسی دفعہ کی دین ہے، یہ دفعہ ہٹ جائیگی تو سب کچھ ٹھیک ہوجائیگا، لیکن آج اس دفعہ کو غیر قانونی اور غیر آئینی طور پر ہٹائے ہوئے 4 سال سے زیادہ عرصہ ہوگیا ہے ، کہاں پر بہتری آئی؟ اُلٹا جہاں جہاں ہماری ریاست آگے تھی وہاں بھی اسے پیچھے دھکیلا گیا۔“
انہوں نے کہاکہ ” ہماری عزت مٹائی گئی، ہماری پہچان تہس نہس کی گئی، ہمارا جھنڈا کہیں نہیں، ہمارا آئین ختم کیا گیا، اس کے بدلے یہاں کے لوگوں کو پریشانیوں، مشکلات اور مصائب کے سوا کیا ملا؟ کون سا نوجوانوں آج سرکاری ملازمت کر رہا ہے؟کس علاقے میں معقول اور مناسب بجلی سپلائی جاری ہے؟ ہمیں تو کہا گیا تھا کہ بس اب بجلی کی کٹوتی نہیں ہوگی، کٹوتی تو دور کی بات آج تو بجلی ہی کہیں نظر نہیں آتی؟ایک دن میں 12، 14، 16گھنٹے کٹوتی ہر ایک جگہ کا معمول بن گیا ہے
عمر عبداللہ کا کہنا تھا کہ آج لوگوں کو اتنی بجلی نصیب نہیں ہوتی کہ وہ اپنے موبائل فون چارج کرسکیں۔ میٹر لگانے میں اس حکومت نے کوئی کثر باقی نہیں چھوٹی لیکن جب بجلی کی فراہمی کی بات آئی تو نااہلی اور ناکامی کے سوا کچھ دیکھنے کو نہیں مل رہا ہے۔ “ حکومت کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے عمر عبداللہ نے کہا کہ حد تو یہ ہے کہ مساجد کو حکومت کی طرف سے سردیوں میں جو بالن فراہم کیا جاتا تھا آج اس بالن کی فراہمی بھی بند ہوگئی ہے، جنگلات ہمارے، پیڑ ہمارے، سب سے پہلا حق بھی ہمارا ہونا چاہئے لیکن یہ حق بھی ہم سے چھین لیا گیاہے۔ راشن کا حال بھی آپ کے سامنے ہے، کاٹتے کاٹتے اب محض 5کلو راشن کوٹا ملتا ہے اور اس کیلئے بھی لوگوں کو کوفت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔سرکاری دفاتر میں عام لوگوں کی کہیں شنوائی نہیں نیز موجودہ دور میں حکومتی سطح پر لوگوں کو تکلیف اور دکھ کے سوا کچھ نہیں مل رہاہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ اوپر سے حکمرانوں نے ایسی ہوا چلائی ہے کہ اگر کوئی حکومت کی مخالفت کرتا ہے تو اسے ملک کی مخالفت تصور کیا جاتاہے۔ شکر ہے کہ گذشتہ دنوں جموں وکشمیر ہائی کورٹ نے صاف صاف الفاظ میں کہا کہ حکومت کی مخالفت کرنا ملک کی مخالفت کرنے کے مترادف نہیں ہے۔ بھاجپا کے مقامی ساتھیوں کو ہدف تنقید بناتے ہوئے عمر عبداللہ نے کہا کہ ”وزیر اعظم کے چھوٹے بھائی “ مجھے طعنے دیتے ہیں کہ میں ٹورسٹ ہوں اور کپواڑہ سیر کرنے کیلئے آتا ہوں،”میں نے کب کہا ہے کہ میں کپواڑہ کا رہنے والا ہوں، میں تو یہاں اپنی سیاسی سرگرمیوں اور ساتھیوں سے ملنے کیلئے کبھی کبھار آتا ہوں۔ لیکن میں موصوف سے کہنا چاہتا ہوں کہ آپ کہاں رہتے ہیں؟ آپ بھی تو میری طرح سرینگر میں قیام پذیر ہیں، آپ کا گھر تو میرے گھر سے ایک کلومیٹر فاصلے پر ہے، اگر آپ کپواڑہ میں مجھے ٹورسٹ سمجھتے ہیں تو آپ کا یہاں آنا بھی مجھ سے کچھ مختلف نہیں ہے“۔
مزید پڑھیں:
انہوں نے کہا کہ ”میں بھاجپا کی بی ٹی، سی ٹیم اور ڈی ٹیم کو مشورہ دیتا ہوں کہ وہ نیشنل کانفرنس کی مخالفت کرنے کے بجائے یو پی میں جو کشمیریوں کیساتھ ہورہا ہے اُس کیخلاف آواز اُٹھائے۔کس طرح سے کشمیریوں کو تھانوں میں بلا کر تنگ کیا جاتا ہے ،اس کیلئے اپنا اثر رسوخ استعمال کیجئے۔اگر آپ کشمیریوں کی بات نہیں کرسکتے تو کم از کم یوپی کے مسلمانوں کی بات ہی کیجئے ، جہاں حلال کی مہر لگی ہوئی کسی بھی چیز کو گھروں کے اندر رکھنا غیر قانونی ہے۔ دفعہ370 پر آپ نے ہاتھ کھڑے کر دیئے ہیں، لیکن باقی چیزوں پر آپ خاموش کیوں ہیں؟جس طرح ہم بجلی نظام میں بہتری کیلئے بجلی پروجیکٹوں کی واپسی کا مطالبہ کررہے ہیں آپ کو ایسا کرنا سے کون روک رہا ہے؟ کیا آپ کو لوگوں کی تکلیف دکھائی نہیں دیتی ہے؟
(یو این آئی)