ETV Bharat / state

Shaheen Group of Institutions: تعلیمی میدان میں بہتری ہی مسلمانوں کے بہترمستقبل کی ضامن، ماہرِ تعلیم ڈاکٹر عبدالقدیر

شاہین گروپس آف انسٹی ٹیوشن کرناٹک کے شہر بیدر میں واقع ہے۔ بیدر میں مسلمان 19 فیصد ہیں، لیکن کرناٹک کا یہ تاریخی شہر بہمنی سلاطین کا پایۂ تخت رہ چکا ہے، اقامتی تعلیمی ادارہ شاہین گروپس آف انسٹی ٹیوشن کے لیے بیدر مشہور ہوگیا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اس نے یہاں تعلیمی انقلاب برپا کردیا جا کا اعتراف غیر مسلم بھی کرتے ہیں۔ Muslims Need to Come Forward in the Field of Education

ماہرتعلیم ڈاکٹرعبدالقدیر
ماہرتعلیم ڈاکٹرعبدالقدیر
author img

By

Published : Apr 25, 2022, 1:03 PM IST

ملک میں مسلمانوں میں جوہلکی سی بیداری تعلیم کے شعبے میں پیداہوئی ہے،اس پر مزید توجہ دینے کی ضرورت ہے اور تعلیم کے میدان میں بہتری کے لیے جگہ جگہ اپنے تعلیمی ادارے اوردرسگاہیں قائم کرنے کے عمل میں اور تیزی لانا اورتعلیم کے حصول کوترجیح دینی چاہئیے،اس کے علاوہ اقامتی درسگاہوں کی خصوصی ضرورت ہے،یہی چیز مسلمانوں کے بہتر مستقبل کی ضامن ہو گی ،ان خیالات کا اظہار کاشاہین گروپس آف انسٹی ٹیوشن کے روح رواں ڈاکٹر عبد القدیر نے نامہ نگاروں سے گفتگو کے دوران یہاں کیا۔ Muslims Need to Come Forward in the Field of Education

انہوں نے مزید کہ کہا کہ ہمیں اس اہم مقصدکے لیے جامع منصوبہ بندی کی ضرورت ہے اور ان لوگوں کی مدد لینی ہوگی،جوکہ تعلیمی اداروں کوایک نئے انداز میں آگے بڑھارہے ہیں۔ واضح رہے کہ شاہین گروپس آف انسٹی ٹیوشن کرناٹک کے شہر بیدر میں واقع ہے۔ بیدر میں مسلمان 19 فیصد ہیں،لیکن کرناٹک کایہ تاریخی شہربہمنی سلاطین کا پایہ تخت رہ چکا ہے، اقامتی تعلیمی ادارہ شاہین گروپس آف انسٹی ٹیوشن کے لیے بیدر مشہور ہوگیا ہے اور اس کی وجہ یہاں تعلیمی انقلاب برپا کردیا اور اس کا اعتراف غیر مسلم بھی کرتے ہیں ۔

ڈاکٹر عبد القدیر نے کہاکہ کی ان کے ادارہ شاہین کی ملک کے مختلف علاقوں میں مراکز اور شاخیں قائم کی گئی ہیں ،انہوں نے مسلمانوں میں جس نئے فارمولے کے ساتھ تعلیمی بیداری پیدا کی ہے ،اس کی وجہ سے اقلیتی فرقے کوتعلیم کی حصولیابی آسان مرحلہ ہوسکتا ہے، لیکن اس مقصد کے لیے کس حد تک محنت کی گئی ہے۔اور ایماندار انہ کوشش کاثمر بھی مل رہاہے، جنوبی ہند کی پڑوسی ریاستوں میں ہی نہیں بلکہ دورافتادہ خطوں جیسے آسام ،اترپردیش،بہاروغیرہ میں بھی شاخیں قائم کی گئی ہیں ،جبکہ بیدرشہر کے اس اقامتی کیمپس درسگاہ میں تقریباً ساڑھے چارہزار طلباء وطالبات زیر تعلیم ہیں۔ شہر کے طلبہ بھی روزانہ تعلیم کی غرض سے آتے ہیں۔

شاہین میں عام تعلیم کی فراہمی کے ساتھ ہی کئی شعبوں کی سرگرمیاں بھی جاری ہیں ،نیٹ کے لیے ذہین بچوں کے لیے خصوصی تیاری کا نظام ہےجبکہ یوپی ایس سی اورذہانت کی بہتری کے لیےاین ٹی ایس کی تربیت بھی دی جاتی ہے۔ انہوں نے مزید مطلع کیاکہ شاہین کے تعلیمی مشن کے تحت ایک ایسا شعبہ (اے آئی سی یو)بھی قائم کیاگیا ہے، جس کے تحت دینی تعلیم حاصل کرنے والے بچوں اور حفاظ اور ڈراپ آوٹ بچوں کو قلیل تعداد میں ایک معلم کی نگرانی میں ان کی ذہانت اور صلاحیت کو ابھارنے کی ہرممکن کوشش کی جاتی ہے۔

اس ادارہ نے سب سے زیادہ شہرت حفظ پلس اسکیم کی وجہ سے حاصل کی ہے ،مذکورہ اسکیم کے تحت حفاظ کو عصری تعلیم سے بھی ہمکنار کرایاجاتا ہے،یہ بات اہمیت کی حامل ہے کہ ان حفاظ کی بڑی تعداد میڈیکل اور انجینرنگ کی تعلیم میں کامیابی حاصل کر چکی ہے۔اس طرز پر ملک بھر میں اب دوسرے ادارے بھی کام کررہے ہیں اور یہ فارمولہ نافذ کرکے دینی اداروں کے بچوں پر توجہ دی گئی ہے،ڈراپ آؤٹ بچوں کوآے آئی سی یو کے تحت تربیت دے کر ان کی ذہانت کو ابھارا جاتا ہے اور اس مقصد میں اچھی پیش رفت ہوئی ہے۔

ڈاکٹر عبد القدیر نے حفظ القرآن پلس کو ایک منفر داور کامیاب تجربہ قرار دیا،اور کہاکہ قرآن حفظ کرنے کی اہمیت وفضیلت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے ،لیکن علمی اور سائنسی میدان میں حفظ قرآن کا جوشکل دی گئی ہے۔حفظ القر آن پلس اور عالم پلس کے ذریعہ شاہین اداره کے پروگرام کا ملک وملت پر اس کے خوش آئند اثرات مرتب ہورہے ہیں۔ ان کے مطابق شاہین کے ذریعہ کامیاب تجربہ کیا گیا،اور اس کو حفظ القرآن پلس کا نام دیا گیا، اس مشن کے 2 بڑے فوائد سامنے آئے ہیں کہ حفاظ قرآن کو عصری تعلیم حاصل کرنے کا مواقع ملے، اور انھوں نے حفظ قرآن کی برکت سے NEET اور CET کے امتحانات پاس کیے ۔ اور معاشرے میں بحثیت حافظ ڈاکٹر اور حافظ انجیر وغیرہ اپنا مقام رکھتے ہیں ۔ آج متعدد حافظ ڈاکٹر اور انجینئربن گئے ہیں اور والدین نے بھی اپنےبچوں کو حافظ بنانا شروع کر دیا . شاہین کی کوشش ہے کہ زیادہ سے زیاد ہ حفظ القرآن پلس کے سنٹرس کھلیں۔

انہوں نے کہاکہ شاہین کیپمس میں منتظمین نے ہمیشہ ہی ڈسپلن ،دینی ماحول اور طالبات کی عزت واحترام اور پردہ کا پوراپورا خیال رکھاہے،ان سے کسی طرح کاسمجھوتہ نہیں کیا جاتا یے،طالبات کے رہائشی احاطہ کی خصوصی نگرانی اورتحفظ کے بھر پور انتظامات کیے گئے ہیں۔کیمپس کے چپہ۔چپہ پر سی سی ٹی وی نصب ہیں اور 24 گھنٹے نگرانی کی جاتی ہے۔جبکہ طعام ورہائش کے انتظامات بھی قابل ستائش ہیں، اگر نیک نیتی اور ایمانداری سے کسی بھی تعلیمی ادارے میں بہتر اقدامات کیے جائیں توہرطرح کی رکاوٹ کو دور کیا جاسکتا ہے۔

واضح رہے کہ ہندوستانی مسلمانوں میں 1992 میں بابری مسجد کی شہادت کے بعد اچانک تعلیمی بیداری پیدا ہوگئی اور معروف بزرگ صحافی کلدیپ نیئر ہمیشہ اس تعلق سے اظہار کرتے رہے ،لیکن قوم میں تعلیمی میدان میں ترقی کے بعد اچانک دوعشرے بعد پھر وہی چال بے ڈھنگی کا عالم پیدا ہوگیا ہے۔،البتہ ملک کے کئی شہروں اورخطوں میں انفرادی طورپر متعدد افراد ملت کے نوجوانوں کی بہتر تعلیم اور بیداری کے لیے بڑی تندہی اور فکرمندی سے سرگرم ہیں اور اس کے لیے محنت وجدوجہد بھی کررہے ہیں۔

یو این آئی

ملک میں مسلمانوں میں جوہلکی سی بیداری تعلیم کے شعبے میں پیداہوئی ہے،اس پر مزید توجہ دینے کی ضرورت ہے اور تعلیم کے میدان میں بہتری کے لیے جگہ جگہ اپنے تعلیمی ادارے اوردرسگاہیں قائم کرنے کے عمل میں اور تیزی لانا اورتعلیم کے حصول کوترجیح دینی چاہئیے،اس کے علاوہ اقامتی درسگاہوں کی خصوصی ضرورت ہے،یہی چیز مسلمانوں کے بہتر مستقبل کی ضامن ہو گی ،ان خیالات کا اظہار کاشاہین گروپس آف انسٹی ٹیوشن کے روح رواں ڈاکٹر عبد القدیر نے نامہ نگاروں سے گفتگو کے دوران یہاں کیا۔ Muslims Need to Come Forward in the Field of Education

انہوں نے مزید کہ کہا کہ ہمیں اس اہم مقصدکے لیے جامع منصوبہ بندی کی ضرورت ہے اور ان لوگوں کی مدد لینی ہوگی،جوکہ تعلیمی اداروں کوایک نئے انداز میں آگے بڑھارہے ہیں۔ واضح رہے کہ شاہین گروپس آف انسٹی ٹیوشن کرناٹک کے شہر بیدر میں واقع ہے۔ بیدر میں مسلمان 19 فیصد ہیں،لیکن کرناٹک کایہ تاریخی شہربہمنی سلاطین کا پایہ تخت رہ چکا ہے، اقامتی تعلیمی ادارہ شاہین گروپس آف انسٹی ٹیوشن کے لیے بیدر مشہور ہوگیا ہے اور اس کی وجہ یہاں تعلیمی انقلاب برپا کردیا اور اس کا اعتراف غیر مسلم بھی کرتے ہیں ۔

ڈاکٹر عبد القدیر نے کہاکہ کی ان کے ادارہ شاہین کی ملک کے مختلف علاقوں میں مراکز اور شاخیں قائم کی گئی ہیں ،انہوں نے مسلمانوں میں جس نئے فارمولے کے ساتھ تعلیمی بیداری پیدا کی ہے ،اس کی وجہ سے اقلیتی فرقے کوتعلیم کی حصولیابی آسان مرحلہ ہوسکتا ہے، لیکن اس مقصد کے لیے کس حد تک محنت کی گئی ہے۔اور ایماندار انہ کوشش کاثمر بھی مل رہاہے، جنوبی ہند کی پڑوسی ریاستوں میں ہی نہیں بلکہ دورافتادہ خطوں جیسے آسام ،اترپردیش،بہاروغیرہ میں بھی شاخیں قائم کی گئی ہیں ،جبکہ بیدرشہر کے اس اقامتی کیمپس درسگاہ میں تقریباً ساڑھے چارہزار طلباء وطالبات زیر تعلیم ہیں۔ شہر کے طلبہ بھی روزانہ تعلیم کی غرض سے آتے ہیں۔

شاہین میں عام تعلیم کی فراہمی کے ساتھ ہی کئی شعبوں کی سرگرمیاں بھی جاری ہیں ،نیٹ کے لیے ذہین بچوں کے لیے خصوصی تیاری کا نظام ہےجبکہ یوپی ایس سی اورذہانت کی بہتری کے لیےاین ٹی ایس کی تربیت بھی دی جاتی ہے۔ انہوں نے مزید مطلع کیاکہ شاہین کے تعلیمی مشن کے تحت ایک ایسا شعبہ (اے آئی سی یو)بھی قائم کیاگیا ہے، جس کے تحت دینی تعلیم حاصل کرنے والے بچوں اور حفاظ اور ڈراپ آوٹ بچوں کو قلیل تعداد میں ایک معلم کی نگرانی میں ان کی ذہانت اور صلاحیت کو ابھارنے کی ہرممکن کوشش کی جاتی ہے۔

اس ادارہ نے سب سے زیادہ شہرت حفظ پلس اسکیم کی وجہ سے حاصل کی ہے ،مذکورہ اسکیم کے تحت حفاظ کو عصری تعلیم سے بھی ہمکنار کرایاجاتا ہے،یہ بات اہمیت کی حامل ہے کہ ان حفاظ کی بڑی تعداد میڈیکل اور انجینرنگ کی تعلیم میں کامیابی حاصل کر چکی ہے۔اس طرز پر ملک بھر میں اب دوسرے ادارے بھی کام کررہے ہیں اور یہ فارمولہ نافذ کرکے دینی اداروں کے بچوں پر توجہ دی گئی ہے،ڈراپ آؤٹ بچوں کوآے آئی سی یو کے تحت تربیت دے کر ان کی ذہانت کو ابھارا جاتا ہے اور اس مقصد میں اچھی پیش رفت ہوئی ہے۔

ڈاکٹر عبد القدیر نے حفظ القرآن پلس کو ایک منفر داور کامیاب تجربہ قرار دیا،اور کہاکہ قرآن حفظ کرنے کی اہمیت وفضیلت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے ،لیکن علمی اور سائنسی میدان میں حفظ قرآن کا جوشکل دی گئی ہے۔حفظ القر آن پلس اور عالم پلس کے ذریعہ شاہین اداره کے پروگرام کا ملک وملت پر اس کے خوش آئند اثرات مرتب ہورہے ہیں۔ ان کے مطابق شاہین کے ذریعہ کامیاب تجربہ کیا گیا،اور اس کو حفظ القرآن پلس کا نام دیا گیا، اس مشن کے 2 بڑے فوائد سامنے آئے ہیں کہ حفاظ قرآن کو عصری تعلیم حاصل کرنے کا مواقع ملے، اور انھوں نے حفظ قرآن کی برکت سے NEET اور CET کے امتحانات پاس کیے ۔ اور معاشرے میں بحثیت حافظ ڈاکٹر اور حافظ انجیر وغیرہ اپنا مقام رکھتے ہیں ۔ آج متعدد حافظ ڈاکٹر اور انجینئربن گئے ہیں اور والدین نے بھی اپنےبچوں کو حافظ بنانا شروع کر دیا . شاہین کی کوشش ہے کہ زیادہ سے زیاد ہ حفظ القرآن پلس کے سنٹرس کھلیں۔

انہوں نے کہاکہ شاہین کیپمس میں منتظمین نے ہمیشہ ہی ڈسپلن ،دینی ماحول اور طالبات کی عزت واحترام اور پردہ کا پوراپورا خیال رکھاہے،ان سے کسی طرح کاسمجھوتہ نہیں کیا جاتا یے،طالبات کے رہائشی احاطہ کی خصوصی نگرانی اورتحفظ کے بھر پور انتظامات کیے گئے ہیں۔کیمپس کے چپہ۔چپہ پر سی سی ٹی وی نصب ہیں اور 24 گھنٹے نگرانی کی جاتی ہے۔جبکہ طعام ورہائش کے انتظامات بھی قابل ستائش ہیں، اگر نیک نیتی اور ایمانداری سے کسی بھی تعلیمی ادارے میں بہتر اقدامات کیے جائیں توہرطرح کی رکاوٹ کو دور کیا جاسکتا ہے۔

واضح رہے کہ ہندوستانی مسلمانوں میں 1992 میں بابری مسجد کی شہادت کے بعد اچانک تعلیمی بیداری پیدا ہوگئی اور معروف بزرگ صحافی کلدیپ نیئر ہمیشہ اس تعلق سے اظہار کرتے رہے ،لیکن قوم میں تعلیمی میدان میں ترقی کے بعد اچانک دوعشرے بعد پھر وہی چال بے ڈھنگی کا عالم پیدا ہوگیا ہے۔،البتہ ملک کے کئی شہروں اورخطوں میں انفرادی طورپر متعدد افراد ملت کے نوجوانوں کی بہتر تعلیم اور بیداری کے لیے بڑی تندہی اور فکرمندی سے سرگرم ہیں اور اس کے لیے محنت وجدوجہد بھی کررہے ہیں۔

یو این آئی

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.