5 اگست 2019 کو پارلیمنٹ میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے جموں و کشمیر تنظیم نو قانون 2019 کو منظوری دیکر جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کو ختم کرکے سابق ریاست کو دو حصوں میں تقسیم کرتے وقت کہا تھا کہ جموں و کشمیر میں تعمیر و ترقی کا نیا دور شروع ہوگا۔
دفعہ 35 اے اور 370 کی منسوخی کے دو برس گزر جانے کے بعد جہاں بیشتر سیاسی تنظیمیں اس فیصلے سے متعلق اپنا احتجاج درج کر رہی ہیں وہیں اس ضمن میں عام شہری خصوصا خواتین بھی زیادہ مطمئن نظر نہیں آ رہیں۔
ای ٹی وی بھارت نے اس ضمن صوبہ جموں سے تعلق رکھنے والی بعض خواتین سے دفعہ 370سے متعلق ردعمل جاننے کی کوشش تو انہوں نے بھی ملا جلا رد عمل ظاہر کیا۔
جموں سے تعلق رکھنے والی خواتین نے ای ٹی وی بھارت کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا کہ ’’حکومت نے دفعہ 35 اے اور 370 کی منسوخی کے بعد جتنے بھی حکمنامے جاری کیے ہیں، وہ محض اعلانات تک ہی محدود ہیں، جموں و کشمیر کی خواتین کو اس سے زیادہ کچھ بھی حاصل نہیں ہوا کہ انکی شادی غیر مقامی باشندے کے ساتھ ہونے کے بعد یہاں کی شہریت برقرار رہی۔‘‘
انہوں نے کہا کہ دفعہ 370کی منسوخی کے وقت خصوصا خواتین کے حقوق سے متعلق جو اعلانات مرکزی سرکار نے کیے تھے دو برسوں کے دوران زمینی سطح پر ایسا کچھ بھی دیکھے کو نہیں ملا۔
مزید پڑھیں: دفعہ 370 کی منسوخی کے بعد صورتحال ابتر: گپکار الائنس
انہوں نے کہا کہ آج بھی یہاں کے نوجوان بے روزگار ہیں اور نوکریوں کے لیے در در کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔
مزید پڑھیں: Abrogation of Article 370: 'اگست جموں وکشمیر کی تاریخ کا سیاہ باب‘
گھریلو تشدد کے واقعات میں اضافہ پر بھی انہوں نے مرکزی سرکار کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا: ’’خواتین کے ساتھ زیادتی اور گھریلو تشدد میں دن بہ دن اضافہ ہو رہا ہے جس سے یہ بات صاف ظاہر ہوتی ہے کہ زمینی سطح پر خواتین کے تحفظ اور حقوق سے متعلق ٹھوس اقدامات نہیں اٹھائے جا رہے۔‘‘