ETV Bharat / state

دفعہ 370 کی منسوخی کے بعد جموں میں کیا تبدیلی آئی؟ - article 35 a

ایک برس مکمل ہونے پر مرکزی حکومت کے فیصلے کی حمایت کرنے والی مختلف تنظیمیں اب بی جے پی سے نالاں ہیں۔

Jammu
Jammu
author img

By

Published : Aug 4, 2020, 9:22 AM IST

Updated : Aug 4, 2020, 11:52 AM IST

ایک برس قبل یعنی 5 اگست 2019 کو دفعہ 370 کی منسوخی کے بعد مرکزی حکومت نے اسے جموں و کشمیر میں تعمیر و ترقی اور بدلاؤ کے لئے اہم بتایا تھا۔

دفعہ 370 کی منسوخی کے بعد جموں میں کیا تبدیلی آئی؟

مرکزی حکومت کے ذریعہ کی گئی اس تبدیلی کے نتیجے میں جموں و کشمیر کا مکمل ریاست کا درجہ چھن گیا اور اب ریاست جموں و کشمیر کی جگہ مرکز کے زیرِ انتظام دو علاقے عمل میں لائے گئے جن میں سے ایک کا نام جموں و کشمیر اور دوسرے کا نام لداخ رکھا گیا اور ان دونوں علاقوں کا انتظام و انصرام لیفٹیننٹ گورنر کی زیر صدارت میں ہورہا ہے۔

وہیں مرکزی حکومت نے جموں و کشمیر کے لئے 30757 کروڑ، لداخ کے لئے 5958 کروڑ روپے مختص کرتے ہوئے یہ واضح اشارہ دیا ہے کہ حکومت ان دونوں خطوں کی ترقی کرنے کے لئے سنجیدہ ہے۔

جموں میں سیکیورٹی
جموں میں سیکیورٹی

جموں و کشمیر میں تعمیر ترقی اور نئے دور کا جو نعرہ مرکز میں برسراقتدار بی جے پی حکومت نے دیا تھا وہ زمینی سطح پر گزشتہ ایک برس میں دکھائی نہیں دیا۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ مرکزی حکومت نے انہیں مزید مشکلات میں ڈال دیا ہے۔

جموں کے ایک نوجوان مہندر جیت سنگھ کا کہنا ہیں دفعہ 370 کی منسوخی کے بعد جموں کی معیشت ختم ہوئی ہے۔ اس سے جموں کے عوام کو کافی نقصان پہنچا ہے اور جو خواب بی جے پی نے لوگوں کو دکھائے تھے وہ حقیقت سے دور ہے۔ بیروزگار نوجوان سڑکوں پر اپنے مطالبات کو لیکر احتجاج کر رہے ہیں۔ تاہم روزگار کے وسائل موجود نہیں۔

ننیشنل کانفرنس کے صوبائی صدر شیخ بشیر احمد کا کہنا ہے کہ 5 اگست 2019 کے بعد سب سے بڑی تبدیلی کے طور پر جموں و کشمیر کو تباہ کیا گیا ہے۔ سب کچھ تباہ ہوگیا۔ نوجوان نوکری کے لئے ترس رہے ہیں، تجارت پیشہ افراد انتظار کررہے ہیں کہ کب وہ مالی بدحالی سے باہر نکل کر کام شروع کریں اور جو دعویٰ بی جے پی کے حکمرانوں نے کیا تھا کہ 70 سالوں کی تباہی کی ہم بھرپائی کریں گے۔ دراصل جو 70 سالوں میں جموں کشمیر لداخ میں بنا تھا وہ برباد ہوگیا اور 5 اگست 2019 کو اس کی تباہی کا فیصلہ پارلیمنٹ میں کیا گیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ اس دوران جمہوری اداروں کو کمزور کیا گیا اور نوجوانوں کا استحصال کیا گیا۔

دفعہ 370 کی منسوخی پر خوشی منانے والے ایک خاص طبقے کے لوگ بھی اب جموں میں ناخوش دکھائی دے رہے ہیں۔ ایکجٹ جموں نامی تنظیم کے صدر ایڈوکیٹ انکر شرما کا کہنا ہے کہ ہم نے دفعہ 370 کی منسوخی اور ریاست کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کا خیر مقدم کیا تھا کیونکہ ہمیں امید تھی کہ اب جموں کو کشمیر سنٹرک سیاست اور سیاست دانوں سے نجات ملے گی اور جموں کی تعمیر ترقی کی راہ ہموار ہوگی تاہم ایک سال گزرجانے کے بعد بھی ایسی تبدیلی دیکھنے کو نہیں مل رہی ہے جو جموں کے عوام کے ساتھ ایک بہت بڑا دھوکہ ہے۔

شیو سینا کے صدر منیش سہنی کے مطابق جموں کشمیر کی آئینی حیثیت کو ختم کرنے کے بعد جو امید تھی اس پر بی جے پی نے پانی پھیر دیا جو جموں کے عوام کے ساتھ دھوکہ دہی ہے۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ مرکزی حکومت جموں کشمیر کی تعمیر و ترقی میں اب اہم کردار ادا کرے نہ کہ اسے بربادی کی راہ پر گامزن کرے۔

جموں کی تصویر
جموں کی تصویر

بتادیں کہ ملک کے آئین کے تحت ہی دفعہ 370 سے جموں و کشمیر کو خصوصی درجہ حاصل تھا۔ اس دفعہ کی رو سے سکیورٹی اور خارجہ امور کو چھوڑ کر دیگر تمام معاملات میں ریاست کو فیصلہ کرنے کا اختیار حاصل تھا۔ آئین سے اس دفعہ کو حذف کردینے کے ساتھ ہی کشمیر کو حاصل یہ خصوصی حیثیت ختم ہوگئی۔ جب کہ یونین ٹیریٹری ہو جانے کے بعد ریاستی عوام وزیر اعلٰی کا انتخاب تو کرسکیں گے لیکن تمام تر اختیارات بھارتی صدر کی طرف سے نامزد کردہ گورنر کے پاس ہوں گے۔ اس وقت بھارت کے نو صوبے یونین ٹیریٹری کے تحت ہیں۔

ایک برس قبل یعنی 5 اگست 2019 کو دفعہ 370 کی منسوخی کے بعد مرکزی حکومت نے اسے جموں و کشمیر میں تعمیر و ترقی اور بدلاؤ کے لئے اہم بتایا تھا۔

دفعہ 370 کی منسوخی کے بعد جموں میں کیا تبدیلی آئی؟

مرکزی حکومت کے ذریعہ کی گئی اس تبدیلی کے نتیجے میں جموں و کشمیر کا مکمل ریاست کا درجہ چھن گیا اور اب ریاست جموں و کشمیر کی جگہ مرکز کے زیرِ انتظام دو علاقے عمل میں لائے گئے جن میں سے ایک کا نام جموں و کشمیر اور دوسرے کا نام لداخ رکھا گیا اور ان دونوں علاقوں کا انتظام و انصرام لیفٹیننٹ گورنر کی زیر صدارت میں ہورہا ہے۔

وہیں مرکزی حکومت نے جموں و کشمیر کے لئے 30757 کروڑ، لداخ کے لئے 5958 کروڑ روپے مختص کرتے ہوئے یہ واضح اشارہ دیا ہے کہ حکومت ان دونوں خطوں کی ترقی کرنے کے لئے سنجیدہ ہے۔

جموں میں سیکیورٹی
جموں میں سیکیورٹی

جموں و کشمیر میں تعمیر ترقی اور نئے دور کا جو نعرہ مرکز میں برسراقتدار بی جے پی حکومت نے دیا تھا وہ زمینی سطح پر گزشتہ ایک برس میں دکھائی نہیں دیا۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ مرکزی حکومت نے انہیں مزید مشکلات میں ڈال دیا ہے۔

جموں کے ایک نوجوان مہندر جیت سنگھ کا کہنا ہیں دفعہ 370 کی منسوخی کے بعد جموں کی معیشت ختم ہوئی ہے۔ اس سے جموں کے عوام کو کافی نقصان پہنچا ہے اور جو خواب بی جے پی نے لوگوں کو دکھائے تھے وہ حقیقت سے دور ہے۔ بیروزگار نوجوان سڑکوں پر اپنے مطالبات کو لیکر احتجاج کر رہے ہیں۔ تاہم روزگار کے وسائل موجود نہیں۔

ننیشنل کانفرنس کے صوبائی صدر شیخ بشیر احمد کا کہنا ہے کہ 5 اگست 2019 کے بعد سب سے بڑی تبدیلی کے طور پر جموں و کشمیر کو تباہ کیا گیا ہے۔ سب کچھ تباہ ہوگیا۔ نوجوان نوکری کے لئے ترس رہے ہیں، تجارت پیشہ افراد انتظار کررہے ہیں کہ کب وہ مالی بدحالی سے باہر نکل کر کام شروع کریں اور جو دعویٰ بی جے پی کے حکمرانوں نے کیا تھا کہ 70 سالوں کی تباہی کی ہم بھرپائی کریں گے۔ دراصل جو 70 سالوں میں جموں کشمیر لداخ میں بنا تھا وہ برباد ہوگیا اور 5 اگست 2019 کو اس کی تباہی کا فیصلہ پارلیمنٹ میں کیا گیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ اس دوران جمہوری اداروں کو کمزور کیا گیا اور نوجوانوں کا استحصال کیا گیا۔

دفعہ 370 کی منسوخی پر خوشی منانے والے ایک خاص طبقے کے لوگ بھی اب جموں میں ناخوش دکھائی دے رہے ہیں۔ ایکجٹ جموں نامی تنظیم کے صدر ایڈوکیٹ انکر شرما کا کہنا ہے کہ ہم نے دفعہ 370 کی منسوخی اور ریاست کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کا خیر مقدم کیا تھا کیونکہ ہمیں امید تھی کہ اب جموں کو کشمیر سنٹرک سیاست اور سیاست دانوں سے نجات ملے گی اور جموں کی تعمیر ترقی کی راہ ہموار ہوگی تاہم ایک سال گزرجانے کے بعد بھی ایسی تبدیلی دیکھنے کو نہیں مل رہی ہے جو جموں کے عوام کے ساتھ ایک بہت بڑا دھوکہ ہے۔

شیو سینا کے صدر منیش سہنی کے مطابق جموں کشمیر کی آئینی حیثیت کو ختم کرنے کے بعد جو امید تھی اس پر بی جے پی نے پانی پھیر دیا جو جموں کے عوام کے ساتھ دھوکہ دہی ہے۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ مرکزی حکومت جموں کشمیر کی تعمیر و ترقی میں اب اہم کردار ادا کرے نہ کہ اسے بربادی کی راہ پر گامزن کرے۔

جموں کی تصویر
جموں کی تصویر

بتادیں کہ ملک کے آئین کے تحت ہی دفعہ 370 سے جموں و کشمیر کو خصوصی درجہ حاصل تھا۔ اس دفعہ کی رو سے سکیورٹی اور خارجہ امور کو چھوڑ کر دیگر تمام معاملات میں ریاست کو فیصلہ کرنے کا اختیار حاصل تھا۔ آئین سے اس دفعہ کو حذف کردینے کے ساتھ ہی کشمیر کو حاصل یہ خصوصی حیثیت ختم ہوگئی۔ جب کہ یونین ٹیریٹری ہو جانے کے بعد ریاستی عوام وزیر اعلٰی کا انتخاب تو کرسکیں گے لیکن تمام تر اختیارات بھارتی صدر کی طرف سے نامزد کردہ گورنر کے پاس ہوں گے۔ اس وقت بھارت کے نو صوبے یونین ٹیریٹری کے تحت ہیں۔

Last Updated : Aug 4, 2020, 11:52 AM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.