دنیا میں ایسے بھی لوگ ہیں جنہیں بہادری کے لئے جانا جاتا ہے۔ اُن کی عزت افزائی کے لئے اُنہیں انعامات اور میڈل سے نوازا جاتا ہے۔ اُن کی حوصلہ افزائی کے لئے لوگ انہیں اپنا ہیرو سمجتے ہیں۔ یقیناً ایسے بہادر لوگوں کی سماج میں سراہنا ہوتی ہے لیکن وادی میں کچھ بہادر لوگ ایسے بھی ہیں، جو لوگوں اور حکومت کی نظروں سے اوجھل ہیں۔
'ریسکیو چاچا' حکومت کی نظروں سے اوجھل آج ہم ایسے شخص کی بات کریں گے، جنہیں دوسروں کی جان بچانے میں خوشیاں حاصل ہوتی ہیں۔ جی ہاں! گزشتہ 38 برس سے لوگوں کی خدمت کرنے والے لیاقت علی جن کو ریسکیو چاچا کے نام سے جانا جاتا ہے، جموں و کشمیر کے جنوبی ضلع اننت ناگ کے کوکرناگ کے دور دراز پسماندہ علاقہ گاورن سے تعلق رکھتے ہیں۔ پیشہ سے ایک دکاندار ہیں،جو مرگن ٹاپ کی خطرناک پہاڑیوں کے دامن تلے 'ناوکن' علاقہ میں اپنی ایک چھوٹی سی دکان چلا رہے ہیں اور اسی میں اپنی زندگی کا گزر بسر کر رہے ہیں۔ لیاقت کا کہنا ہے کہ گاورن سے مرگن ٹاپ کے بیچ علاقہ ناوکن میں واحد اُس کے خود کی ایک دکان ہے، جو سالہا سال مسافروں کے لئے کھلی رہتی ہے۔ جہاں نہ صرف مسافر کھاتے پیتے ہیں بلکہ مصیبت یا مجبوری کے وقت مسافروں کے لئے آرام کرنے کے لئے اپنی اس جھوپڑی میں ہر ایک چیز مسافروں کی آسائش کے لئے مہیا رکھی ہے، جو ضرورت پڑنے پر استعمال میں لائی جا سکتی ہے۔
مرگن ٹاپ کی خوبصورت اور خطرناک پہاڑیوں کے دامن میں رہائش پزیر لیاقت علی کے مطابق بارشوں اور برفیلے ایام کے دوران انہوں نے ریسکیو کر کے کافی لوگوں کی جان بچائی ہے۔ مقامی علاقہ میں نہ کوئی بستی، نہ مواصلات اور نہ ہی کوئی اور سہولیت دستیاب ہے، جس سے یہ بہادر انسان لوگوں کو رابطہ کر سکے۔ تاہم اس بہادر انسان نے اکیلے ہی کئی بار اپنی جان پہ کھیل کر دوسروں کی جان بچائی ہے۔ای ٹی وی بھارت کے نمائندہ دین عمران سے بات کرتے ہوئے 56 سالہ لیاقت علی کا کہنا ہے مرگن ٹاپ پر آنے اور جانے والے سیلانیوں کے لئے انتظامیہ نے کوئی بھی سہولیت دستیاب نہیں رکھی ہے۔ اسلئے انہوں نے 38 سال قبل یہ فیصلہ لیا کہ وہ ان خطرناک پہاڑیوں میں مسافروں کی خدمت کریں گے۔ جس سے نہ صرف اس نے اپنے عیال کی پرورش کی، بلکہ مسافروں کو بھی کئی مشکلات سے نجات دلائی۔ بجائے اس کے کہ لیاقت کی کفالت کی جائے، انتظامیہ اور محکمہ جنگلات نے انہین کافی تنگ طلب کرکے جگہ خالی کرنے کو کہا ہے۔لیاقت کی اہلیہ زبیدا کا کہنا ہے کہ جس طرح سے دنیا میں دوسرے بہادر لوگوں کی سرہنا ہوتی ہے، سماج میں لوگ ان کی قدر یا عزت افزائی کرتے ہیں، یا انتظامیہ مختلف طریقوں سے مدد کرتی ہیں، لیاقت کی آج تک کسی نے خیر و خبر نہیں پوچھی۔
وادی میں ایسے افراد کی کوئی کمی نہیں، جو دوسرے لوگوں کو خوشیاں دینے میں اپنی خوشیاں ڈھونڈتے ہیں، ضرورت اس بات کی ہے کہ ایسے افراد کو نہ صرف ریاستی سطح پر بلکہ ملکی سطح پر حوصلہ افزائی کی جائے۔ تاکہ لیاقت جیسے لوگوں کی واقعی طور عزت افزائی ہو۔