روس کے وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے بدھ کے روز سرکاری دورے پر تہران پہنچنے کے فوراً بعد ایرانی صدر ابراہیم رئیسی سے ملاقات کی۔ ایرانی وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان کی دعوت پر اپنے دو روزہ دورے کے دوران، لاوروف ایران کے جوہری معاہدے پر بات چیت کے لیے سینئر ایرانی حکام سے ملاقاتیں بھی کرنے والے ہیں۔ ایران کے سرکاری میڈیا کے مطابق لاوروف یوکرین، شام اور افغانستان سے متعلق امور، تجارت اور توانائی کے تعاون کے ساتھ ساتھ تہران اور یوریشیا اور قفقاز کے علاقوں کے درمیان تعاون کی توسیع پر بھی بات چیت کی۔
یاد رہے کہ گزشتہ ماہ روس نے کہا تھا کہ روس اور ایران دونوں کو مغربی ممالک کی پابندیوں کا سامنا ہے جبکہ دونوں ملکوں کے پاس دنیا کے تیل اور گیس کے وسائل کی دولت کا بڑا حصہ ہونے کی بنیاد پر دونوں کے لیے ضروری ہے کہ باہم بات کریں اور تیل و گیس کی ترسیل کے لیے لائحہ عمل بنائیں۔ قابل ذکر ہے کہ ایران اور روس دونوں امریکی پابندیوں کی زد میں ہیں، جس کی وجہ سے ان کی توانائی کے بڑے ذخائر کو عالمی منڈیوں میں بھیجنے کی صلاحیت محدود ہوگئی ہے۔ دونوں ممالک نے اپنے تعلقات کو اسٹریٹجک قرار دیا۔
یہ بھی پڑھیں: Iranian FM Arrives in India: جے شنکر نے نئی دہلی میں ایرانی ہم منصب کا خیرمقدم کیا
ایران نے جولائی 2015 میں عالمی طاقتوں کے ساتھ جوہری معاہدے پر دستخط کیے، جسے باضابطہ طور پر جوائنٹ کمپری ہینسو پلان آف ایکشن (JCPOA) کے نام سے جانا جاتا ہے، اس کے بدلے میں تہران پر سے پابندیاں ہٹانے کے بدلے میں اس کے جوہری پروگرام پر کچھ پابندیاں عائد کرنے کو قبول کیا گیا تھا۔ تاہم، سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مئی 2018 میں امریکہ کو اس معاہدے سے نکال لیا اور تہران پر واشنگٹن کی یکطرفہ پابندیاں دوبارہ عائد کر دیں، جس سے ایران نے جوابی کارروائی میں معاہدے کے تحت اپنے کچھ جوہری وعدوں کو کم کرنے کا اشارہ کیا۔
گزشتہ سال اپریل سے ایران اور JCPOA کے بقیہ فریقوں کے درمیان اس معاہدے کو بحال کرنے کے لیے ویانا میں مذاکرات کے کئی دور ہو چکے ہیں۔ ایران اس بات کی ضمانت حاصل کرنے پر اصرار کرتا ہے کہ آنے والی امریکی حکومتیں دوبارہ اس معاہدے سے دستبردار نہیں ہوں گی، اور تصدیق شدہ طریقے سے پابندیاں ہٹانے کا مطالبہ کرتا ہے۔