کشمیر میں قالین کی صنعت کو موجودہ بحرانی صورتحال سے باہر نکالنے اور اسے ایک نئی جلا بخشنے کے لیے دستکاری شعبہ سے وابستہ چند پڑھے لکھے نوجوان سامنے آئے ہیں، جو کہ قالین بافی کی احیا کی خاطر اس میں جدت لاتے ہوئے کیلیگرافی اور دیگر ڈائزائن متعارف کرارہے ہیں۔
سرینگر:قالین صنعت کی احیا کیلئے نئے ڈیزائن متعارف کرنے کی مثبت پہل کشمیر کی قدیم دستکاریوں میں قالین بافی ایک اہم صنعت کے طور تصور کی جاتی رہی ہے اور کبھی یہ صنعت کشمیر کی اقتصادیات میں ریڑھ کی ہڈی کی حثیت رکھتی تھی۔اس صنعت سے نہ صرف ہزاروں دستکار بلکہ وابستہ دیگر افراد بھی اپنی روز روٹی بہتر طور کماتے تھے، لیکن چند دہائیوں سے بین الاقوامی بازار کا رجحان تبدیل ہونے اور متعلقہ محکمے کی عدم توجہی نے کشمیر کی قالین صنعت کو زوال پذیر کر دیا۔ شہنواز احمد صوفی نے روایتی ڈیزائنز سے ہٹ کر قالین میں کیلیگرافی اور دیگر دلکش اور پُرکشش ڈائزنز متعارف کئے ہیں، تاکہ قالین صنعت کو نہ صرف پھر سے زندہ کیا جاسکے بلکہ بین الاقوامی بازار میں اس کے وقار کو بھی بحال کیا جائے۔ کیلیگرافی اور دیگر الگ الگ ڈیزائنز سے بنائے جارہے اس طرح کے قالین کمروں میں سجاوٹ کے اعتبار سے کافی پسند کئے جارہے ہیں۔ دیواروں پر لگنے والے قالین کے بعض اس طرح کے ڈائزائنز ملکی اور بیرونی خریداروں کو بھی راغب کررہے ہیں جبکہ دن بدن اس کی مانگ بھی بڑھ رہی ہے۔ کشمیری قالین کو ایک نئے رنگ و روپ میں بین الاقوامی مارکیٹ میں متعارف کرانے کے لیےعماد احمد بھی مصروف عمل ہے۔ عماد نے اٹلی میں لگزری برانڈ منیجمنٹ ( luxury brand management) میں تعلیم حاصل کی ہے۔ بین الاقوامی بازار کی نہج کو محسوس ہوئے عماد کہتے ہیں کہ نئے ڈیزائنز متعارف کرنے سے ہی کشمیری قالین کی مانگ بیرون ممالک میں بڑھ سکتی ہے۔مزید پڑھیں:
یورپی اور خلیجی ممالک میں کشمیری قالین ایکسپورٹ کرنے سے نہ صرف ملک کی آمدنی میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ وابستہ افراد کو بھی روزگار حاصل ہوتا یے۔
چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز کے صدر شیخ عاشق اس طرح کی پہل کو مثبت اور حوصلہ افزا قرار دیتے ہوئے کہتے کہ ایسے نوجوانوں کی مدد کے لیے متعلقہ محکمے کو بھی آگے آنا ہوگا۔
قالین بافی کی احیا کی خاطر اس طرح کی جدت پسندی خوش آئند پہل تو ہے تاہم سرکاری سطح پر بھی اس قدیم صنعت کو بچانے کے لیے عملی طور کام کرنے کی بے حد ضرورت ہے