وادی میں ہزاروں تاجر اور کسانوں کا روزگار اس کاروبار پر منحصر ہے۔ لیکن گزشتہ چند برسوں کے دوران حکومت کی عدم توجہی کے باعث اخروٹ کی پیداوار زوال پذیر ہوتی نظر آرہی ہے۔
کسانوں کا کہنا ہے کہ کاروبار میں منافع ہونے سے وہ اس سے ہی جڑے رہے، تاہم اب قیمتوں میں بھی کافی کمی آئی ہے جس سے وہ مایوس ہیں۔
کشمیر یونیورسٹی میں شعبہ اقتصادیات کے پروفیسر ڈاکٹر جاوید احمد کا کہنا ہے کہ روایتی طرز پر اس کی کاشت اور پروسیسنگ کی جا رہی ہے جس کی وجہ سے اس کی پیدوار کم رہی ہے۔
محکمہ باغبانی کے ڈپٹی ڈائریکٹر محمد یوسف ڈار نے ای ٹی وی بھارت سے اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ اخروٹ کی کاشتکاری روایتی طریقوں سے کی جارہی ہے۔
تاہم انہوں نے کہا کہ اخروٹ کی پیداوار کو بڑھانے کے لیے محکمہ کی جانب سے سے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ محکمے کی جانب سے اب جدید قسم کے اخروٹ کے پودے اور نرسریاں تیار کی جا رہی ہے اور ان کسانوں میں عام کیا جارہا ہے تاکہ اس شعبے میں پھر سے جان آجائے۔
محکمہ باغبانی کی اعداد و شمار کے مطابق وادی میں قریبا 20 ہزار کنال اراضی زمین پر اخروٹ کاشت کئے جاتے ہیں۔
محکمہ کے مطابق اخروت کی تجارت سے وادی میں 1000 کروڈ کی سالانہ آمدن ہوتی ہے