ETV Bharat / city

انسانی زندگی کی بقا کے لیے کیڑے مکوڑوں کی حفاظت لازمی

شیر کشمیر زرعی یونیورسٹی کے شعبہ انٹومولوجی کی اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر اسما شیروانی کہتی ہیں کہ 'پھولوں والے زیادہ تر پودوں اور ہماری فصلوں کے 70 فیصد پودوں کے لیے کیڑے مکوڑوں سے ملنے والی پولینیشن کی ضرورت ہے۔ یہ کیڑے مکوڑے حیاتیاتی ڈھانچوں کو توڑتے ہیں جس سے ان کے گلنے سڑنے اور تحلیل ہونے کے عمل میں تیزی آتی ہے۔ اس طرح مٹی کو تازگی ملتی ہے۔

انسانی زندگی کی بقا کے لے کیڑے مکوڑوں کی حفاظت لازمی ہے
انسانی زندگی کی بقا کے لے کیڑے مکوڑوں کی حفاظت لازمی ہے
author img

By

Published : Oct 12, 2021, 6:00 PM IST

زمین پر رینگنے اور اڑنے والے کیڑے مکوڑے نہ صرف انسانی خوراک پیدا کرنے میں کافی اہمیت رکھتے ہیں، بلکہ ایکو سسٹم یعنی جانوروں، پودوں اور بیکٹریا سمیت دیگر تمام جانداروں کی زندگیوں کے ایک دوسرے پر انحصار کے نظام کو بھی محفوظ رکھنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

انسانی زندگی کی بقا کے لے کیڑے مکوڑوں کی حفاظت لازمی ہے

شہد کی مکھی، کینچوا، مکڑی، چینٹیاں اور تتلی وغیرہ ایسے کیڑے ہیں جو کہ مختلف فصلوں کی پیداوار کے لئے بے حد فائدہ مند ہیں۔

وہیں نیوٹرینٹ ری سائیکلنگ یا مختلف غذائی اجزاء کے غذا کی فطری پیداوار میں دوبارہ شامل ہونے کے عمل کا انحصار بڑی حدتک ایسے کروڑوں کیڑے مکوڑوں پر ہے جو زمین کے اندر اور پانی میں رہتے ہیں۔

شیر کشمیر زرعی یونیورسٹی کے شعبہ انٹومولوجی کی اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر اسما شیروانی کہتی ہیں کہ 'پھولوں والے زیادہ تر پودوں اور ہماری فصلوں کے 70 فیصد پودوں کے لیے کیڑے مکوڑوں سے ملنے والی پولینیشن کی ضرورت ہوتی ہے۔

یہ کیڑے مکوڑے حیاتیاتی ڈھانچوں کو توڑتے ہیں جس سے ان کے گلنے سڑنے اور تحلیل ہونے کے عمل میں تیزی آتی ہے۔ اس طرح مٹی کو تازگی ملتی ہے۔کیڑے مکوڑوں کی دنیا اتنی بڑی ہے کہ اب تک صحیح تعداد پر اتفاق رائے نہیں ہے۔

ایک سرسری اندازے کے مطابق کیڑے مکوڑوں کی تقریبا 55 لاکھ نسلیں ہیں جن میں سے ابھی تک صرف 10 لاکھ کو ہی شناخت ہوئی ہے۔ کیڑے مکوڑوں کی بڑی تعداد اور ان کا تنوع بھی انہیں معدومی کے خطرے سے نہیں بچا پا رہا ہے یہاں تک کہ ایسے کیڑے بھی ختم ہورہے ہیں جنہیں ابھی تک دریافت ہی نہیں کیا جاسکاہے۔

اسپرے کرنے کے دوران ہم ان کیڑوں کو بھی مار دیتے ہیں جن سے ہمیں فائدہ حاصل ہوتا ہے۔ ماہرین کی رائے میں ماحولیات کو سب سے زیادہ فائدہ شہد کی مکھی سے ہوتا ہے اور اگر ان سے پولینیشن نہ ملے تو 70 فیصد فصلیں خراب ہوجائیں گی اور ہمارے لیے کھانا تک نہیں بچے گا۔

ایسے میں کیڑے مکوڑوں اور دستیاب غذا کی اہمیت کو بھی سمجھنےکی ضرورت ہے۔ اور اگر ایسا نہیں کیا گیا تو آنے والے وقت میں خوراک کی قلت کا سامنا وادی کشمیر میں بھی کرنا پڑسکتا ہے۔

یہ حقیقت ہے کہ فطری نظام کے ساتھ انسان کی بے جا مداخلت کے نتیجے میں ہی ان کیڑے مکوڑوں کی تعداد میں کمی دیکھنے کو مل رہی ہے۔ اس کے علاوہ کیڑے مار ادویات کا بے دریغ استعمال اور درجہ حرارت جیسی وجوہات بھی کیڑے مکوڑوں کی تعداد میں کمی کا باعث بن رہی۔

مزید پڑھیں: سرینگر: گاڑیوں میں ہر آئے دن اضافہ لیکن سڑکیں اب بھی وہی پرانی اور تنگ

کیڑے مکوڑے پرندوں، چمگاڈر اور دودھ پلانے والے چھوٹے جانوروں کو بھی خوراک مہیا کراتے ہیں۔ ایسے میں اگر کیڑے مکوڑوں کی ایسی اقسام ختم ہوتی رہی تو اس کا براہ راست اثر نہ صرف انسانی بلکہ دیگر جانداروں کے خوراک پر بھی پڑے گا۔

زمین پر رینگنے اور اڑنے والے کیڑے مکوڑے نہ صرف انسانی خوراک پیدا کرنے میں کافی اہمیت رکھتے ہیں، بلکہ ایکو سسٹم یعنی جانوروں، پودوں اور بیکٹریا سمیت دیگر تمام جانداروں کی زندگیوں کے ایک دوسرے پر انحصار کے نظام کو بھی محفوظ رکھنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

انسانی زندگی کی بقا کے لے کیڑے مکوڑوں کی حفاظت لازمی ہے

شہد کی مکھی، کینچوا، مکڑی، چینٹیاں اور تتلی وغیرہ ایسے کیڑے ہیں جو کہ مختلف فصلوں کی پیداوار کے لئے بے حد فائدہ مند ہیں۔

وہیں نیوٹرینٹ ری سائیکلنگ یا مختلف غذائی اجزاء کے غذا کی فطری پیداوار میں دوبارہ شامل ہونے کے عمل کا انحصار بڑی حدتک ایسے کروڑوں کیڑے مکوڑوں پر ہے جو زمین کے اندر اور پانی میں رہتے ہیں۔

شیر کشمیر زرعی یونیورسٹی کے شعبہ انٹومولوجی کی اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر اسما شیروانی کہتی ہیں کہ 'پھولوں والے زیادہ تر پودوں اور ہماری فصلوں کے 70 فیصد پودوں کے لیے کیڑے مکوڑوں سے ملنے والی پولینیشن کی ضرورت ہوتی ہے۔

یہ کیڑے مکوڑے حیاتیاتی ڈھانچوں کو توڑتے ہیں جس سے ان کے گلنے سڑنے اور تحلیل ہونے کے عمل میں تیزی آتی ہے۔ اس طرح مٹی کو تازگی ملتی ہے۔کیڑے مکوڑوں کی دنیا اتنی بڑی ہے کہ اب تک صحیح تعداد پر اتفاق رائے نہیں ہے۔

ایک سرسری اندازے کے مطابق کیڑے مکوڑوں کی تقریبا 55 لاکھ نسلیں ہیں جن میں سے ابھی تک صرف 10 لاکھ کو ہی شناخت ہوئی ہے۔ کیڑے مکوڑوں کی بڑی تعداد اور ان کا تنوع بھی انہیں معدومی کے خطرے سے نہیں بچا پا رہا ہے یہاں تک کہ ایسے کیڑے بھی ختم ہورہے ہیں جنہیں ابھی تک دریافت ہی نہیں کیا جاسکاہے۔

اسپرے کرنے کے دوران ہم ان کیڑوں کو بھی مار دیتے ہیں جن سے ہمیں فائدہ حاصل ہوتا ہے۔ ماہرین کی رائے میں ماحولیات کو سب سے زیادہ فائدہ شہد کی مکھی سے ہوتا ہے اور اگر ان سے پولینیشن نہ ملے تو 70 فیصد فصلیں خراب ہوجائیں گی اور ہمارے لیے کھانا تک نہیں بچے گا۔

ایسے میں کیڑے مکوڑوں اور دستیاب غذا کی اہمیت کو بھی سمجھنےکی ضرورت ہے۔ اور اگر ایسا نہیں کیا گیا تو آنے والے وقت میں خوراک کی قلت کا سامنا وادی کشمیر میں بھی کرنا پڑسکتا ہے۔

یہ حقیقت ہے کہ فطری نظام کے ساتھ انسان کی بے جا مداخلت کے نتیجے میں ہی ان کیڑے مکوڑوں کی تعداد میں کمی دیکھنے کو مل رہی ہے۔ اس کے علاوہ کیڑے مار ادویات کا بے دریغ استعمال اور درجہ حرارت جیسی وجوہات بھی کیڑے مکوڑوں کی تعداد میں کمی کا باعث بن رہی۔

مزید پڑھیں: سرینگر: گاڑیوں میں ہر آئے دن اضافہ لیکن سڑکیں اب بھی وہی پرانی اور تنگ

کیڑے مکوڑے پرندوں، چمگاڈر اور دودھ پلانے والے چھوٹے جانوروں کو بھی خوراک مہیا کراتے ہیں۔ ایسے میں اگر کیڑے مکوڑوں کی ایسی اقسام ختم ہوتی رہی تو اس کا براہ راست اثر نہ صرف انسانی بلکہ دیگر جانداروں کے خوراک پر بھی پڑے گا۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.