سرینگر کے مسکین باغ رینواری کے رہنے والے محمد رمضان بٹ محکمہ بجلی میں یومیہ مزدور کے طور پر کام کرتے تھے۔ اس کے علاوہ اُن کی کرانے کا ایک دکان بھی تھی۔
31 مئی سنہ 1996 میں پولیس نے محمد رمضان بٹ کو عسکریت پسند قرار دے کر ہلاک کر دیا تھا۔ تاہم بعد میں ثابت ہوا کہ وہ عام شہری تھے اور عسکری سرگرمیوں کے ساتھ اُن کا کوئی تعلق نہیں تھا جس کے بعد سے محمد رمضان بٹ کی بیوہ جمیلہ بانو اور فرزند بلال بٹ اپنے والد کو انصاف دلانے کے لیے مسلسل کوشش کر رہے ہیں۔
اب 25 برس کے طویل عرصہ کے بعد گذشتہ ماہ کی 28 تاریخ کو سرینگر کی ایک عدالت نے محمد رمضان بٹ کے کنبہ کی تمام دلیلوں سے اتفاق کرتےہوئے پولیس کو حکم دیا کہ آئندہ 6 ماہ کے اندر اس معاملے پر اسپیشل انویسٹیگیشن ٹیم تشکیل دے کر معاملے کی تحقیقات کریں اور متاثرہ کنبہ کو انصاف دلائیں۔
عدالت نے کہا کہ پوسٹ مارٹم رپورٹ سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ رمضان بٹ کی موت تشدد کی وجہ سے ہوئی۔ اُن کی تین پسلیاں بھی ٹوٹی ہوئی تھیں۔ جبکہ ایف آئی آر میں یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ رمضان کی ہلاکت انکاؤنٹر کے دوران ہوئی تھی۔ تاہم پوسٹ مارٹم رپورٹ سے یہ ثابت نہیں ہوتا کیوں کہ ان کے جسم پر گولی کا کوئی نشان نہیں تھا'۔
عدالت نے مزید کہا کہ اس وقت کے سرینگر کے ایس ایس پی نے اسپیشل انویسٹیگیشن ٹیم بھی تشکیل دی تھی، تاہم تین سالوں تک مسلسل تحقیقات کرنے کے بعد بھی معاملے کو حل نہیں کیا گیا۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ جانچ صحیح طریقے سے نہیں کی گئی۔ لہذا ایس ایس پی سرینگر کو حکم دیا جاتا ہے کہ وہ معاملے پر اسپیشل انویسٹیگیشن ٹیم تشکیل دیں اور معاملے کی تحقیقات میں لاپرواہی برتنے والے تمام پولیس اہلکاروں کے خلاف کارروائی کریں اور معاملے کو صحیح طریقہ سے حل کر کے آئندہ چھ ماہ میں رپورٹ پیش کریں'۔
عدالت کے فیصلے کے بعد رمضان بٹ کے اہل خانہ میں یہ اُمید جاگی ہے کہ اب اُنہیں انصاف جلد ملے گا۔
رمضان کی بیوہ جمیلہ بانو نے ای ٹی وی بھارت سے بتایا کہ میں ہر اعلیٰ افسر اور پولیس اہلکار کے پاس گئی، انصاف کی فریاد کی۔ میں نے اپنے خدا سے عہد کیا تھا کہ جب تک میرے شوہر کو انصاف نہیں ملے گا، میں دم نہیں لوں گی۔ میں نے اُمید کا دامن کبھی نہیں چھوڑا۔'
عدالت میں درخواست گزار نے دعویٰ کیا ہے کہ دو پولیس اہلکار رمضان بٹ سے سامان ادھار لیتے تھے اور جب اُنہو ں نے ان سے پیسوں کا مطالبہ کیا تو محض 7 ہزار 500 روپے ادا کرنے کے بجائے تشدد کر کے انہیں ہلاک کر دیا گیا۔'
وہیں رمضان بٹ کے فرزند بلال بٹ کا کہنا ہے کہ 'میں بہت چھوٹا تھا جب والد کو ہلاک کیا گیا۔ اُن کی کمی ہمیشہ محسوس ہوتی رہی۔ اگر میرے والد ہوتے تو آج میں انجینئر ہوتا۔ وسائل کی کمی کی وجہ سے میں کچھ کر نہیں پایا۔ والدہ سے جتنا بن سکا انہوں نے کیا۔'
انہوں نے بتایا کہ 'ہم گھر پر والد کے تعلق سے بات نہیں کرتے کیونکہ جب بھی ان کی باتیں ہوتی ہیں تو ہم لوگ پریشان ہوجاتے ہیں۔ ہماری والدہ کی طبیعت بگڑنے لگتی ہے۔'
'والد کو انصاف دلانے کے خاطر ہم نے ہر ممکن کوشش کی اور ہمیشہ اُمید قائم رکھی۔ انصاف کی لڑائی کا سفر بیان کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ 'جب سے ہوش سنبھالا ہے، بس اسی کوشش میں ہوں کہ والد کو انصاف ملے۔ اس کے لیے ہیومن رائٹس کمشن میں معاملہ درج کیا۔
'سنہ 2007 میں ہیومن رائٹس کمیشن نے فیصلہ سنایا۔ تاہم کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔ کمیشن نے واضح کر دیا تھا کہ میرے والد کا فرضی انکاؤنٹر ہوا ہے۔ اس کے بعد سنہ 2008 میں کمیشن نے ایک اور حکم جاری کیا جس میں ہمیں معاوضہ اور نوکری دینے کی سفارش کی گئی لیکن پھر بھی کچھ نہیں ہوا۔'
'سنہ 2006 میں اس وقت کے ایس ایس پی نے ایس آئی ٹی تشکیل دی تھی لیکن وہاں سے بھی ہمیں کوئی انصاف نہیں ملا۔'
'ان ساری کوششوں کے بعد بھی جب انصاف نہیں ملا تو میں نے ارادہ کیا کہ اب میں اپنے والد کو انصاف دلانے کے لیے عدالت سے رجوع کروں گا۔ تبھی سے عدالت کے چکر کاٹ رہا ہوں۔'
مزید پڑھیں: شہری ہلاکت کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے: عمر عبدا ﷲ
اسی دوران میری ملاقات ایڈوکیٹ تبسم سے ہوئی جنہوں نے میری رہنمائی کی جس کے بعد ہم نے پہلے پہل عدالت میں اسٹیٹس رپورٹ کے لیے معاملہ درج کیا۔ پتہ چلا کہ پولیس نے کلوزر رپورٹ دائر کی ہے۔ میں پریشان ہوا کیوں کہ ہم کو اس حوالے سے کوئی خبر نہیں تھی۔ پھر عدالت میں احتجاجی عرضِی دائر کی جس پر سماعت ہوئی اور اکتوبر کی 28 تاریخ کو عدالت نے پولیس کو حکم دیا کہ معاملے کی صحیح طریقے سے تحقیقات کی جائیں اور قصور واروں کے خلاف کارروائی کی جائے۔
اس وقت کے ایس ایچ او رعنا واری میر حسین، کانسٹیبل نورالدین، کانسٹیبل والی محمد، عبدالمجید اور عزم گرجر اس معاملے میں قصوروار بتائے جا رہے ہیں۔ میری ایس ایس پی سرینگر سے گزارش ہے کہ وہ ان تمام افراد کی گرفتاری عمل میں لائیں کیونکہ اُن کا قصور عدالت میں واضح ہو چکا ہے'۔