ETV Bharat / bharat

سید علی گیلانی کی رحلت: کیا کشمیر میں ’حریت‘ یتیم ہوگئی؟ - سید علی شاہ گیلانی

سید علی شاہ گیلانی نے ایک رکن اسمبلی سے لیکر سخت گیر علاحدگی پسند رہنما کا سفر کیسے طے کیا اس پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔

سید علی گیلانی کی رحلت: کیا کشمیر میں ’حریت‘ یتیم ہوگئی؟
سید علی گیلانی کی رحلت: کیا کشمیر میں ’حریت‘ یتیم ہوگئی؟
author img

By

Published : Sep 2, 2021, 4:48 PM IST

Updated : Sep 2, 2021, 7:48 PM IST

کشمیر میں علیحدگی پسند سیاست کے سرپرست اور سخت گیر موقف رکھنے والے سابق حریت کانفرنس چیئرمین سید علی شاہ گیلانی یکم ستمبر 2021 کی رات سری نگر کے حیدر پورہ علاقے میں واقع اپنی رہائش گاہ میں انتقال کرگئے جہاں وہ کئی برسوں سے نظر بند تھے۔ حکام نے ان کی رحلت پر ممکنہ عوامی ردعمل کے پیشِ نظر کشمیر کے بیشتر علاقوں میں بندشیں عائد کیں اور مواصلاتی نظام جزوی طور پر بند کردیا۔

سید علی شاہ گیلانی نے ایک رکن اسمبلی سے لیکر سخت گیر علیحدگی پسند رہنما کا سفر کیسے طے کیا اس پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔

سید علی گیلانی کی پیدائش 29 ستمبر 1929 کو شمالی کشمیر کی وُلر جھیل میں واقع زُرمنز گاؤں میں ہوئی۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم سوپور سے حاصل کی اور بعد میں اورینٹل کالج لاہور سے مزید تعلیم حاصل کی۔ گیلانی کا انتقال، 5 اگست 2019 کے بعد کشمیر میں علیحدگی پسندوں کیلئے دوسرا بڑا المیہ تصور کیا جارہا ہے اور بعض مبصرین کہتے ہیں کہ کشمیر میں علیحدگی پسندی یتیم ہوگئی ہے۔

گیلانی ہمیشہ علیحدگی پسند نہیں تھے۔ 1987 تک انہوں نے متعدد بار اسمبلی اور پارلیمانی الیکشن میں حصہ لیا۔ وہ جماعت اسلامی کے ٹکٹ پر 1972 اور 1977 کے اسمبلی انتخابات میں سوپور حلقے سے ممبر اسمبلی بنے جب کہ 1987 کے متنازعہ الیکشن میں وہ مسلم متحدہ محاذ کے امیدوار کی حیثیت سے اسمبلی میں پہنچے۔

انتخابی عمل میں گیلانی کی شرکت 1989 تک جاری رہی، جب کشمیر میں پاکستان کی پشت پناہی سے مسلح شورش کا آغاز ہوا۔ انہوں نے اس وقت احتجاجاً اپنی نشست سے استعفیٰ دے دیا اور اس کے بعد ہونے والے تمام انتخابات کا بائیکاٹ کیا۔ عام رائے ہے کہ 1987 کے اسمبلی انتخابات میں بڑے پیمانے پر دھاندلیاں ہوئی تھیں، جو عسکریت پسندی کا موجب بنی۔

گیلانی 1993 میں علیحدگی پسند پلیٹ فارم کل جماعتی حریت کانفرنس کی بنیادی ایگزیکٹیو کونسل کے رکن بنے۔ میرواعظ عمر فاروق کی قیادت میں بننے والی حریت کانفرنس میں پیپلز کانفرنس کے عبدالغنی لون، اتحاد المسلمین کے مولوی عباس انصاری، لبریشن فرنٹ کے یاسین ملک اور مسلم کانفرنس کے عبدالغنی بھٹ بھی شامل تھے۔ تیئیس سیاسی اور سماجی تنظیموں پر مشتمل یہ اتحاد، کشمیر کے علیحدگی پسندوں کی پہچان بن گیا۔ بعد میں 1997 میں گیلانی اس اتحاد کے چیئرمین بن گئے۔

گیلانی نے تاہم حریت کانفرنس سے 2003 میں علیحدگی اختیار کی۔ ان کا کہنا تھا کہ اتحاد کے لیڈروں نے 2002 کے اسمبلی انتخابات کے دوران، جب وہ جیل میں بند تھے، الیکشن مخالف مہم نہیں چلائی۔ انہوں نے پیپلز کانفرنس کے رہنما سجاد لون پر الزام عائد کیا کہ انہوں نے الیکشن میں پراکسی امیدوار کھڑے کئے تھے۔

سجاد لون نے اگرچہ گیلانی کے الزامات کو اس وقت مسترد کیا تاہم بعد میں وہ مین اسٹریم سیاست میں باضابطہ طور پر شریک ہوئے اور کئی الیکشنز میں حصہ لیا۔ وہ 2014 کے اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کے حلیف بن گئے اور ریاستی کابینہ میں بھی جگہ پائی۔

گیلانی نے حریت قیادت کی جانب سے جواب نہ ملنے کے بعد 'تحریک حریت' کے نام سے اپنی جماعت قائم کی اور ایک متوازی حریت دھڑہ قائم کیا۔ ان کا دعویٰ تھا کہ انہوں نے حریت کانفرنس میں تطہیری عمل کیا ہے اور وہی اصلی حریت کانفرنس کے سربراہ ہیں۔ اکتوبر 2013 میں وہ چوتھی بار حریت کانفرنس کے اپنے دھڑے کے چیئرمین منتخب ہوئے۔

سید علی گیلانی بنیادی طور جماعت اسلامی کے ساتھ وابستہ تھے۔ جماعت اسلامی، حریت کانفرنس میں ایک اکائی کے طور پر شامل تھی اور گیلانی، جماعت کے پارلیمانی ونگ کے سربراہ تھے۔ ماضی میں جماعت اسلامی الیکشن سیاست میں سرگرم تھی اور گیلانی کو اس میں فعال کردار ادا کرنے کے لئے جانا جاتا ہے۔

گیلانی، تاحیات کشمیر کی سب سے بااثر سیاسی جماعت نیشنل کانفرنس کے مخالف رہے اور تحریروں اور تقریروں میں وہ مرحوم شیخ محمد عبداللہ کے سیاسی فیصلوں کو نشانہ بناتے رہے۔ نیشنل کانفرنس نے بھی گیلانی کی مخالفت میں ایڑی چوٹی کا زور لگایا۔

گیلانی پر الزام لگایا جاتا تھا کہ وہ خود پسند لیڈر ہیں اور انہوں نے نوجوانوں کو بندوق کا راستہ اختیار کرنے کے لئے اکسایا حالانکہ ان کے اپنے بیٹے اور رشتہ دار عسکریت پسندی سے نہ صرف دور رہے بلکہ سرکاری مراعات اور نوکریاں بھی حاصل کیں۔ گیلانی کافی دیر تک سابق اسمبلی ممبر کی حیثیت سے پنشن وصول کرتے تھے تاہم تنقید کا نشانہ بننے کے بعد انہوں نے یہ پنشن وصول کرنا بند کیا تھا۔ ان پر الزام لگایا جاتا ہے کہ کشمیر میں ہڑتالی سیاست کو پروان چڑھاکر انہوں نے کشمیر کو اقتصادی طور پر مفلوج کردیا۔

گیلانی کہتے تھے کہ مسئلۂ کشمیر اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق، بھارت، پاکستان اور کشمیری عوام کے درمیان بات چیت کے ذریعے حل ہونا چاہئے۔ ذاتی طور وہ پاکستان کے ساتھ الحاق کے حامی تھے اور حکومت ہند انہیں پاکستان کا ایجنٹ قرار دیتی تھی۔

گیلانی 2003 سے 2007 تک بھارت اور پاکستان کے درمیان ہوئے مذاکراتی عمل سے دور رہے اور اپنے مخالف حریت دھڑے کو تنقید کا نشانہ بناتے رہے۔ اس دوران انہوں نے پاکستان کے سابق صدر پرویز مشرف کے چار نکاتی فارمولہ کو مسترد کیا تھا۔ گزشتہ سال حکومت پاکستان نے انہیں ملک کا سب سے بڑا شہری اعزاز نشان پاکستان دیا۔

کشمیر میں 2008، 2010 اور 2016 میں ہوئے عوامی مظاہروں کے دوران گیلانی علیحدگی پسندوں کے سب سے بڑے لیڈر کے طور پر ابھر کر سامنے آئے لیکن 2019 میں مرکزی حکومت کے وسیع کریک ڈاؤن کے بعد علیحدگی پسندوں کا قلعہ تہس نہس کیا گیا جس سے گیلانی اپنے گھر تک ہی محدود ہوکر رہ گئے۔

ان کا پاسپورٹ 1981 میں ضبط کرلیا گیا اور کبھی واپس نہیں کیا گیا۔ انہیں صرف 2006 میں حج کی ادائیگی کے لئے پاسپورٹ مہیا کیا گیا تھا۔

گیلانی نے 30 جون 2020 کو اس وقت سب کو حیرت میں ڈال دیا جب انہوں نے خود کو حریت سے الگ کرلیا۔ انہوں نے اپنے نائب محمد اشرف صحرائی کو ذمہ داری سونپی، جو کئی ماہ قبل جموں میں زیر حراست میں فوت ہوگئے۔

ادھر مرکزی حکومت نے 2019 میں دفعہ 370 کی منسوخی کے بعد تقریباً سبھی حریت رہنماؤں کو قید کردیا۔ اور ان پر متعدد کیسز بھی چلائے گئے۔ ان کی تنظیم جماعت اسلامی پر بی جے پی حکومت نے 2019 میں پابندی عائد کی۔

این آئی اے، جس نے اب تک کشمیر سے 18 علیحدگی پسند رہنماؤں کو عسکریت پسندوں کی مالی معاونت کے معاملے میں گرفتار کیا ہے، نے الزام لگایا ہے کہ حریت نے وادی میں بدامنی پھیلانے کے لیے پاکستان سے فنڈز وصول کیے۔ ایجنسی نے چارج شیٹ میں گیلانی اور میر واعظ عمر فاروق کا نام بھی لیا تھا۔ لیکن انہیں ملزم نامزد نہیں کیا گیا تھا۔ گیلانی کے دونوں بیٹوں کو کئی بار پوچھ تاچھ کیلئے دلی طلب کیا گیا جب کہ ان کے فرزند نسبتی الطاف شاہ 2017 سے اب تک دلی کی تہاڑ جیل میں بند ہیں۔

گیلانی کئی امراض سے دوچار تھے۔ سنہ 2003 میں بھارتی شہر رانچی کی ایک جیل میں انہیں گردوں کے کینسر میں مبتلا پایا گیا۔ ان کے دل میں پیس میکر لگا ہوا تھا اور وہ سینے کے انفیکشن کا شکار تھے، جس کی وجہ سے انہیں سانس لینے میں دشواریاں ہوتی تھیں۔

گیلانی کے رشتہ داروں کے مطابق خانہ نظربندی کے دوران انکی یادداشت متاثر ہونے لگی تھی۔ان کی نواسی روا شاہ نے ایک مضمون میں لکھا تھا کہ 'وہ آدمی جو کبھی شیر کی طرح گرجتا تھا اور ہزاروں کو متاثر کرتا تھا اب اپنے ارد گرد ہونے والی دنیاوی چیزوں کو سمجھنے کے لیے جدوجہد کر رہا ہے۔ وہ اپنے گھر والوں کے چہروں کو بھی آسانی سے نہیں پہچان سکتا۔'

سید علی گیلانی، گزشتہ تین دہائیوں سے کشمیر کی سیاست کے اہم کردار تھے۔ حکومت ہند نے بھی کئی بار انکے ساتھ رابطہ استوار کرنے کی کوشش کی۔ 2016 میں انکے گھر میں ایک پارلیمانی وفد بھی بھیجا گیا لیکن انہوں نے بات کرنے سے انکار کیا۔ مستقبل میں گیلانی کی عدم موجودگی سے کشمیر کی سیاست کونسا رخ اختیار کرتی ہے یہ دیکھنا کافی دلچسپ ہوگا،

کشمیر میں علیحدگی پسند سیاست کے سرپرست اور سخت گیر موقف رکھنے والے سابق حریت کانفرنس چیئرمین سید علی شاہ گیلانی یکم ستمبر 2021 کی رات سری نگر کے حیدر پورہ علاقے میں واقع اپنی رہائش گاہ میں انتقال کرگئے جہاں وہ کئی برسوں سے نظر بند تھے۔ حکام نے ان کی رحلت پر ممکنہ عوامی ردعمل کے پیشِ نظر کشمیر کے بیشتر علاقوں میں بندشیں عائد کیں اور مواصلاتی نظام جزوی طور پر بند کردیا۔

سید علی شاہ گیلانی نے ایک رکن اسمبلی سے لیکر سخت گیر علیحدگی پسند رہنما کا سفر کیسے طے کیا اس پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔

سید علی گیلانی کی پیدائش 29 ستمبر 1929 کو شمالی کشمیر کی وُلر جھیل میں واقع زُرمنز گاؤں میں ہوئی۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم سوپور سے حاصل کی اور بعد میں اورینٹل کالج لاہور سے مزید تعلیم حاصل کی۔ گیلانی کا انتقال، 5 اگست 2019 کے بعد کشمیر میں علیحدگی پسندوں کیلئے دوسرا بڑا المیہ تصور کیا جارہا ہے اور بعض مبصرین کہتے ہیں کہ کشمیر میں علیحدگی پسندی یتیم ہوگئی ہے۔

گیلانی ہمیشہ علیحدگی پسند نہیں تھے۔ 1987 تک انہوں نے متعدد بار اسمبلی اور پارلیمانی الیکشن میں حصہ لیا۔ وہ جماعت اسلامی کے ٹکٹ پر 1972 اور 1977 کے اسمبلی انتخابات میں سوپور حلقے سے ممبر اسمبلی بنے جب کہ 1987 کے متنازعہ الیکشن میں وہ مسلم متحدہ محاذ کے امیدوار کی حیثیت سے اسمبلی میں پہنچے۔

انتخابی عمل میں گیلانی کی شرکت 1989 تک جاری رہی، جب کشمیر میں پاکستان کی پشت پناہی سے مسلح شورش کا آغاز ہوا۔ انہوں نے اس وقت احتجاجاً اپنی نشست سے استعفیٰ دے دیا اور اس کے بعد ہونے والے تمام انتخابات کا بائیکاٹ کیا۔ عام رائے ہے کہ 1987 کے اسمبلی انتخابات میں بڑے پیمانے پر دھاندلیاں ہوئی تھیں، جو عسکریت پسندی کا موجب بنی۔

گیلانی 1993 میں علیحدگی پسند پلیٹ فارم کل جماعتی حریت کانفرنس کی بنیادی ایگزیکٹیو کونسل کے رکن بنے۔ میرواعظ عمر فاروق کی قیادت میں بننے والی حریت کانفرنس میں پیپلز کانفرنس کے عبدالغنی لون، اتحاد المسلمین کے مولوی عباس انصاری، لبریشن فرنٹ کے یاسین ملک اور مسلم کانفرنس کے عبدالغنی بھٹ بھی شامل تھے۔ تیئیس سیاسی اور سماجی تنظیموں پر مشتمل یہ اتحاد، کشمیر کے علیحدگی پسندوں کی پہچان بن گیا۔ بعد میں 1997 میں گیلانی اس اتحاد کے چیئرمین بن گئے۔

گیلانی نے تاہم حریت کانفرنس سے 2003 میں علیحدگی اختیار کی۔ ان کا کہنا تھا کہ اتحاد کے لیڈروں نے 2002 کے اسمبلی انتخابات کے دوران، جب وہ جیل میں بند تھے، الیکشن مخالف مہم نہیں چلائی۔ انہوں نے پیپلز کانفرنس کے رہنما سجاد لون پر الزام عائد کیا کہ انہوں نے الیکشن میں پراکسی امیدوار کھڑے کئے تھے۔

سجاد لون نے اگرچہ گیلانی کے الزامات کو اس وقت مسترد کیا تاہم بعد میں وہ مین اسٹریم سیاست میں باضابطہ طور پر شریک ہوئے اور کئی الیکشنز میں حصہ لیا۔ وہ 2014 کے اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کے حلیف بن گئے اور ریاستی کابینہ میں بھی جگہ پائی۔

گیلانی نے حریت قیادت کی جانب سے جواب نہ ملنے کے بعد 'تحریک حریت' کے نام سے اپنی جماعت قائم کی اور ایک متوازی حریت دھڑہ قائم کیا۔ ان کا دعویٰ تھا کہ انہوں نے حریت کانفرنس میں تطہیری عمل کیا ہے اور وہی اصلی حریت کانفرنس کے سربراہ ہیں۔ اکتوبر 2013 میں وہ چوتھی بار حریت کانفرنس کے اپنے دھڑے کے چیئرمین منتخب ہوئے۔

سید علی گیلانی بنیادی طور جماعت اسلامی کے ساتھ وابستہ تھے۔ جماعت اسلامی، حریت کانفرنس میں ایک اکائی کے طور پر شامل تھی اور گیلانی، جماعت کے پارلیمانی ونگ کے سربراہ تھے۔ ماضی میں جماعت اسلامی الیکشن سیاست میں سرگرم تھی اور گیلانی کو اس میں فعال کردار ادا کرنے کے لئے جانا جاتا ہے۔

گیلانی، تاحیات کشمیر کی سب سے بااثر سیاسی جماعت نیشنل کانفرنس کے مخالف رہے اور تحریروں اور تقریروں میں وہ مرحوم شیخ محمد عبداللہ کے سیاسی فیصلوں کو نشانہ بناتے رہے۔ نیشنل کانفرنس نے بھی گیلانی کی مخالفت میں ایڑی چوٹی کا زور لگایا۔

گیلانی پر الزام لگایا جاتا تھا کہ وہ خود پسند لیڈر ہیں اور انہوں نے نوجوانوں کو بندوق کا راستہ اختیار کرنے کے لئے اکسایا حالانکہ ان کے اپنے بیٹے اور رشتہ دار عسکریت پسندی سے نہ صرف دور رہے بلکہ سرکاری مراعات اور نوکریاں بھی حاصل کیں۔ گیلانی کافی دیر تک سابق اسمبلی ممبر کی حیثیت سے پنشن وصول کرتے تھے تاہم تنقید کا نشانہ بننے کے بعد انہوں نے یہ پنشن وصول کرنا بند کیا تھا۔ ان پر الزام لگایا جاتا ہے کہ کشمیر میں ہڑتالی سیاست کو پروان چڑھاکر انہوں نے کشمیر کو اقتصادی طور پر مفلوج کردیا۔

گیلانی کہتے تھے کہ مسئلۂ کشمیر اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق، بھارت، پاکستان اور کشمیری عوام کے درمیان بات چیت کے ذریعے حل ہونا چاہئے۔ ذاتی طور وہ پاکستان کے ساتھ الحاق کے حامی تھے اور حکومت ہند انہیں پاکستان کا ایجنٹ قرار دیتی تھی۔

گیلانی 2003 سے 2007 تک بھارت اور پاکستان کے درمیان ہوئے مذاکراتی عمل سے دور رہے اور اپنے مخالف حریت دھڑے کو تنقید کا نشانہ بناتے رہے۔ اس دوران انہوں نے پاکستان کے سابق صدر پرویز مشرف کے چار نکاتی فارمولہ کو مسترد کیا تھا۔ گزشتہ سال حکومت پاکستان نے انہیں ملک کا سب سے بڑا شہری اعزاز نشان پاکستان دیا۔

کشمیر میں 2008، 2010 اور 2016 میں ہوئے عوامی مظاہروں کے دوران گیلانی علیحدگی پسندوں کے سب سے بڑے لیڈر کے طور پر ابھر کر سامنے آئے لیکن 2019 میں مرکزی حکومت کے وسیع کریک ڈاؤن کے بعد علیحدگی پسندوں کا قلعہ تہس نہس کیا گیا جس سے گیلانی اپنے گھر تک ہی محدود ہوکر رہ گئے۔

ان کا پاسپورٹ 1981 میں ضبط کرلیا گیا اور کبھی واپس نہیں کیا گیا۔ انہیں صرف 2006 میں حج کی ادائیگی کے لئے پاسپورٹ مہیا کیا گیا تھا۔

گیلانی نے 30 جون 2020 کو اس وقت سب کو حیرت میں ڈال دیا جب انہوں نے خود کو حریت سے الگ کرلیا۔ انہوں نے اپنے نائب محمد اشرف صحرائی کو ذمہ داری سونپی، جو کئی ماہ قبل جموں میں زیر حراست میں فوت ہوگئے۔

ادھر مرکزی حکومت نے 2019 میں دفعہ 370 کی منسوخی کے بعد تقریباً سبھی حریت رہنماؤں کو قید کردیا۔ اور ان پر متعدد کیسز بھی چلائے گئے۔ ان کی تنظیم جماعت اسلامی پر بی جے پی حکومت نے 2019 میں پابندی عائد کی۔

این آئی اے، جس نے اب تک کشمیر سے 18 علیحدگی پسند رہنماؤں کو عسکریت پسندوں کی مالی معاونت کے معاملے میں گرفتار کیا ہے، نے الزام لگایا ہے کہ حریت نے وادی میں بدامنی پھیلانے کے لیے پاکستان سے فنڈز وصول کیے۔ ایجنسی نے چارج شیٹ میں گیلانی اور میر واعظ عمر فاروق کا نام بھی لیا تھا۔ لیکن انہیں ملزم نامزد نہیں کیا گیا تھا۔ گیلانی کے دونوں بیٹوں کو کئی بار پوچھ تاچھ کیلئے دلی طلب کیا گیا جب کہ ان کے فرزند نسبتی الطاف شاہ 2017 سے اب تک دلی کی تہاڑ جیل میں بند ہیں۔

گیلانی کئی امراض سے دوچار تھے۔ سنہ 2003 میں بھارتی شہر رانچی کی ایک جیل میں انہیں گردوں کے کینسر میں مبتلا پایا گیا۔ ان کے دل میں پیس میکر لگا ہوا تھا اور وہ سینے کے انفیکشن کا شکار تھے، جس کی وجہ سے انہیں سانس لینے میں دشواریاں ہوتی تھیں۔

گیلانی کے رشتہ داروں کے مطابق خانہ نظربندی کے دوران انکی یادداشت متاثر ہونے لگی تھی۔ان کی نواسی روا شاہ نے ایک مضمون میں لکھا تھا کہ 'وہ آدمی جو کبھی شیر کی طرح گرجتا تھا اور ہزاروں کو متاثر کرتا تھا اب اپنے ارد گرد ہونے والی دنیاوی چیزوں کو سمجھنے کے لیے جدوجہد کر رہا ہے۔ وہ اپنے گھر والوں کے چہروں کو بھی آسانی سے نہیں پہچان سکتا۔'

سید علی گیلانی، گزشتہ تین دہائیوں سے کشمیر کی سیاست کے اہم کردار تھے۔ حکومت ہند نے بھی کئی بار انکے ساتھ رابطہ استوار کرنے کی کوشش کی۔ 2016 میں انکے گھر میں ایک پارلیمانی وفد بھی بھیجا گیا لیکن انہوں نے بات کرنے سے انکار کیا۔ مستقبل میں گیلانی کی عدم موجودگی سے کشمیر کی سیاست کونسا رخ اختیار کرتی ہے یہ دیکھنا کافی دلچسپ ہوگا،

Last Updated : Sep 2, 2021, 7:48 PM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.