راحت اندوری کو پیر کی دیر رات مدھیہ پردیش میں اندور کے ہسپتال میں داخل کرایا گیا تھا۔ راحت اندوری نے خود ٹویٹ کرکے اس بارے میں جانکاری دی تھی۔
راحت اندوری نے خود ہی ایک ٹویٹ میں لکھا تھا کہ 'کووڈ کی علامات کے آغاز کے بعد کل میرا کورونا ٹیسٹ کیا گیا تھا، جس کی رپورٹ مثبت آئی ہے۔ اندور کے اربندو ہسپتال میں داخل ہوں، دعا ہے کہ میں اس بیماری کو جلد سے جلد شکست دوں گا۔ ایک التجا ہے کہ مجھے یا میرے گھر کے لوگوں کو فون نہ کریں، میری طبیعت کی اطلاع آپ کو ٹویٹر اور فیس بک پر ملتی رہیگی'۔
خیال رہے کہ راحت اندوری ادھر کافی دنوں سے سانس کی تکلیف میں مبتلا تھے۔ اطلاعات کے مطابق انہیں ذیابیطس اور دل کا عارضہ بھی تھا۔ حال ہی میں نمونیا کے سبب ان کے پھیپھڑوں میں انفیکشن ہوگیا تھا۔
راحت اندوری 4 ماہ سے اپنے گھر سے نہیں نکلے تھے۔ وہ صرف جانچ کے لئے ہی گھر سے باہر نکلتے تھے۔ انہیں چار پانچ دن سے بے چینی ہو رہی تھی۔ ڈاکٹروں کے مشورے پر پھیپھڑوں کا ایکسرے کرایا گیا تو نمونیا کی تصدیق ہوئی تھی۔ اس کے بعد سیمپل جانچ کے لئے بھیجے گئے تھے، جس میں وہ کورونا پازیٹیو پائے گئے۔
راحت اندوری کے ڈاکٹر روی ڈوسی نے بتایا تھا کہ ان کے دونوں پھپھڑوں میں نمونیا ہے، سانس لینے میں تکلیف کے سبب آئی سی یو میں رکھا گیا تھا، ان کو تین بار دل کا دورہ بھی پڑا تھا۔
راحت اندوری کی پیدائش یکم جنوری 1950 میں اندور میں ہوئی تھی۔ ان کی غزلیں اور نظمیں زبان زد عام تھیں اور انہیں ہندستان اور ہندستان کے باہر کی تمام اردو دنیا میں مشاعروںمیں یکساں مقبولیت حاصل تھی۔
راحت اندوری نے اردو ادب میں پی ایچ ڈی کی تھی۔ مقامی کالج میں درس و تدریس سے بھی وابستہ رہے۔ وہ ایک مصور بھی تھے اور فلموں کے لیے بھی کئی نغمے لکھے۔ ان کے انتقال پر زندگی کے ہر شعبے کے نمائندوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے ان کے دنیا سے چلے جانے کو علم و ادب کا بڑا نقصان قرار دیا۔
مولانا ٓزاد یونیورسٹی جودھ پور کے وائس چانسلر پروفیسر اختر الواسع نے کہا ہے یہ عہد ایک ایسے شاعر سے محروم ہوگیا جو اپنی شاعری میں ماضی کا قصیدہ خواں اور حال کا شاکی تھا لیکن مستقبل کے امکانات کی باتیں کرتا تھا۔