بیجنگ: چین میں امریکی سفیر نے کہا ہے کہ حکمران کمیونسٹ پارٹی کی اپنی سرحدوں کے اندر آن لائن پلیٹ فارمز کی سنسرشپ کے پیش نظر امریکہ میں ٹک ٹاک پر ممکنہ پابندی کے بارے میں بیجنگ کا مؤقف ’انتہائی ستم ظریفی‘ ہے۔
خبر ایجنسی ’اے ایف پی‘ کے مطابق امریکی ایوان نمائندگان نے بدھ کے روز بھاری اکثریت سے ایک بل کی منظوری دی تھی جو بڑے پیمانے پر مقبول شارٹ ویڈیو ایپ کو اپنی چینی پیرنٹ کمپنی کے ساتھ تعلق ختم کرنے یا ملک گیر پابندی کا سامنا کرنے پر مجبور کرے گا۔
چین نے اس منظوری پر کڑی تنقید کی ہے اور اسے واشنگٹن کی ’ڈاکو‘ ذہنیت قرار دیا ہے اور امریکی قانون سازوں پر ’غیر منصفانہ طور پر غیر ملکی کمپنیوں کو دبانے‘ کا الزام لگایا ہے۔
امریکی سفیر نکولس برنز نے جمعہ کو سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ بیجنگ کا مؤقف بلاجواز ہے کیونکہ اس نے بہت سے مغربی ویب پلیٹ فارمز کو ملک میں کام کرنے سے روک دیا ہے۔
نکولس برنز نے امریکہ میں قائم ریسرچ تنظیم ایسٹ ویسٹ سینٹر کے ذریعہ منعقدہ آن لائن سیمینار کے دوران کہا کہ ’مجھے یہ انتہائی ستم ظریفی معلوم ہوتی ہے کہ یہاں چین میں حکومتی اہلکار امریکہ پر اس بحث پر تنقید کر رہے ہیں جو ہم اس وقت ٹک ٹاک پر کر رہے ہیں۔‘ انہوں نے چین میں امریکی عوامی سفارت کاری کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ’وہ ٹک ٹاک کو 1.4 ارب چینی باشندوں کے لیے بھی دستیاب نہیں ہونے دیں گے۔‘
چین کی حکومت آن لائن معلومات کے پھیلاؤ کو سختی سے کنٹرول کرتی ہے اور سیاسی طور پر حساس سمجھے جانے والے سوشل میڈیا مواد کو ختم کر دیتی ہے۔ گوگل، فیس بک اور انسٹاگرام سمیت کئی مغربی پلیٹ فارمز کو ملک میں کام کرنے سے روک دیا گیا ہے۔ ٹک ٹاک کی چینی پیرنٹ کمپنی بائٹ ڈانس بھی چین کے اندر ایپ کا ایک الگ ورژن چلاتی ہے جسے ڈواِن کہتے ہیں۔
چین نے جمعہ کو نکولس برنز کے تبصروں پر جوابی مؤقف پیش کرتے ہوئے کہا کہ ایپ پر امریکی مؤقف ’اصل ستم ظریفی‘ ہے۔ سفیر کے سیمینار کے بارے میں پوچھے جانے پر چینی وزارت خارجہ کے ترجمان وانگ وین بن نے کہا کہ ’امریکا، ٹک ٹاک کو دبانے کے لیے قومی طاقت کو استعمال کرنے کی ہر ممکن کوشش کر رہا ہے۔‘
وانگ وین بن نے کہا کہ ’ایک ایسا ملک جو آزادی اظہار پر فخر کرتا ہے اور آزاد منڈی کی معیشت ہونے کا دعویٰ کرتا ہے، مخصوص کمپنیوں کے خلاف کریک ڈاؤن کرنے کے لیے ریاست کی طاقت کو استعمال کرنے کے لیے تیار ہے، یہی اصل ستم ظریفی ہے۔‘
یہ بھی پڑھیں: