دہلی: ملک گیر پیمانے پر شہریت ترمیمی قانون کو نافذ کیا جا چکا ہے، شہریت ترمیمی قانون کو ایسے وقت میں نافذ کیا گیا جب رمضان المبارک کا مقدس مہینہ شروع ہونے کو تھا اور لوک سبھا انتخابات بھی ہونے ہیں ایسے میں اس قانون کی مخالفت بھی اس طرز پر نہیں کی گئی جیسے سال 2019 میں کی گئی تھی۔ ایسے میں جہاں ایک طرف تمام ملی جماعتوں کی جانب سے مرکزی حکومت کو خط لکھ کر اس قانون کی مخالفت کی گئی اور سڑک پر اتر کر احتجاج کرنے کی دھمکی دی گئی ہے وہیں سپریم کورٹ کے وکیل ایڈووکیٹ انس تنویر کا کہنا ہے کہ مسلمانوں کو اس وقت حکمت عملی سے کام لینا چاہیے اور شہریت ترمیمی قانون کے خلاف بالکل بھی احتجاج نہیں کرنا چاہیے۔
ایڈووکیٹ انس تنویر کے مطابق سپریم کورٹ میں شہریت ترمیمی قانون کے خلاف 237 پیٹیشن داخل کی جا چکی ہے اور یہ معاملہ عدالت میں زیر التوا ہے۔ ایسے میں ابھی اس پر کسی بھی طرح کا ردعمل کا اظہار کرنا نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔ اس کے ساتھ بھی اگر مسلمان سڑکوں پر شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج کرنے اترتے ہیں تو اس کے سبب لوک سبھا انتخابات میں بھی حکمراں جماعت کو فائدہ ہو سکتا ہے۔
ایڈووکیٹ انس تنویر نے واضح طور پر کہا کہ اگر مسلمان سڑکوں پر اترتے ہیں تو اس کا سیدھا فائدہ بی جے پی کو ہوگا ان کا کہنا تھا کہ سرکار نے ایسے میں شہریت ترمیمی قانون کو نافذ کیا ہے یہ ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت کیا گیا ہے اور بی جے پی تو چاہتی ہی ہے کہ مسلمان سڑکوں پر احتجاجی مظاہرے کریں اس دوران بی جے پی اپنا ہندو مسلم کارڈ کھیل کر لوک سبھا انتخابات میں کامیابی حاصل کرلے۔ اسی لیے مسلمانوں کو ہوش میں رہ کر ایک جامع حکمت عملی کے تحت لوک سبھا کے انتخابات پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے تاکہ اس میں حکمراں جماعت کو شکست سے دوچار ہونا پڑے۔