ETV Bharat / state

وقف ترمیمی بل ہمارے توقعات کے خلاف ہے: اصغر علی امام مہدی - Asghar Ali Imam Mehdi

وقف ترمیمی بل 2024 کے خلاف مسلم تنظیموں میں زبردست ناراضگی ہے۔ مجوزہ وقف ترمیمی بل کو وقف کے تحفظ اور شفافیت کے نام پر وقف جائیدادوں کو خبردار کرنے اور قبضہ کرنے کی سازش قرار دے رہے ہیں، بل کو واپس لینے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

ASGHAR ALI IMAM MEHDI
وقف ترمیمی بل ہمارے توقعات کے خلاف ہے: اصغر علی امام مہدی (Etv Bharat)
author img

By ETV Bharat Urdu Team

Published : Aug 26, 2024, 3:02 PM IST

وقف ترمیمی بل ہمارے توقعات کے خلاف ہے: اصغر علی امام مہدی (Video: Etv Bharat)

نئی دہلی: اس سلسلے میں معروف عالم دین اور جمعیت اہل حدیث کے امیر مولانا اصغر علی امام مہدی سلفی نے خاص بات چیت کی۔ انہوں نے ای ٹی وی بھارت سے خاص بات چیت کے دوران کہا کہ مجوزہ بل میں نہ صرف وقف کی تعریف، متولی کی حیثیت اور وقف بورڈوں کے اختیارات کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی گئی ہے، بلکہ سینٹرل وقف کونسل اور وقف بورڈ کے ممبران کی تعداد میں اضافہ کے نام پر پہلی بار اس میں غیر مسلموں کو بھی لازماً ممبر بنانے کی تجویز لائی گئی ہے۔

سینٹرل وقف کونسل میں پہلے ایک غیر مسلم ممبر رکھا جاسکتا تھا، مجوزہ بل میں یہ تعداد 13 تک ہوسکتی ہے، جس میں دو تو لازماً ہونے ہی چاہئے۔ اسی طرح وقف بورڈ میں پہلے صرف چیرمین غیر مسلم ہوسکتا تھا لیکن مجوزہ بل میں یہ تعداد 7 تک ہوسکتی ہے جب کہ بل کے مطابق دو تو لازماً ہوں گے۔ یہ تجویز دستور کی دفعہ 26 سے راست متصادم ہے جو اقلیتوں کو یہ اختیار دیتی ہے کہ وہ اپنے مذہبی و ثقافتی ادارے نہ صرف قائم کر سکتے ہیں بلکہ اس کو اپنے انداز سے چلا بھی سکتے ہیں۔

موجودہ وقف ایکٹ کے تحت ریاستی حکومت وقف بورڈ کی طرف سے تجویز کردہ دو افراد میں سے کسی ایک کو نامزد کرسکتی تھی جو کہ ڈپٹی سکریٹری کے رینک سے نیچے کا نہ ہو لیکن اب وقف بورڈ کے تجویز کردہ کی شرط ہٹا دی گئی ہے اور اب ڈپٹی سکریٹری کی شرط کو ہٹاکر کہا گیا ہے کہ وہ جوائنٹ سکریٹری کی رینک سے کم نہ ہو۔ یہ ترمیمات واضح طور پر سینٹرل وقف کونسل اور وقف بورڈوں کے اختیارات کو کم کرتی ہے اور حکومت کی مداخلت کا راستہ ہموار کررہی ہے۔

مولانا اصغر علی امام مہدی سلفی نے کہا کہ مجوزہ ترمیمی بل وقف املاک پر حکومتی قبضہ کا راستہ بھی ہموار کرتا ہے۔ اگر کسی جائیداد پر حکومت کا قبضہ ہے تو اس کا فیصلہ کرنے کا کلی اختیار بھی کلکٹر کے حوالہ کردیا گیا ہے۔ کلکٹر کے فیصلہ کے بعد وہ ریونیو ریکارڈ درست کروائے گا اور حکومت وقف بورڈ سے کہے گی کہ وہ اس جائیداد کو اپنے ریکارڈ سے حذف کر دے۔

اسی طرح اگر وقف املاک پر کوئی تنازعہ ہو تو اس کو طے کرنے کا اختیار بھی وقف بورڈ کے ذمہ تھا جو وقف ٹربیونل کے ذریعہ اسے طے کراتا تھا، اب وقف ٹریبونل کا یہ اختیار بھی مجوزہ بل میں کلکٹر کے حوالے کردیا گیا ہے۔ موجودہ وقف ایکٹ میں کسی بھی تنازعہ کو ایک سال کے اندر وقف ٹریبونل کے اندر لانا ضروری تھا، اس کے بعد کوئی تنازعہ سنا نہیں جائے گا۔ اب یہ شرط بھی ہٹادی گئی ہے۔ مجوزہ بل نے کلکٹر اور سرکاری انتظامیہ کو من مانے اختیارات دے دیئے ہیں۔ جب کہ آج کلکٹر کے حکم سے مسلمانوں کی زمینوں پر بلڈوزر چلائے جارہے ہیں، تو پھر وقف املاک کے سلسلے میں ان کے رویہ پر کیسے بھروسہ کیا جاسکتا ہے؟

یہ بھی پڑھیں:

وقف ترمیمی بل، مسلمانوں کی املاک کو ہڑپنے کی سازش: مسلم پرسنل لا بورڈ

کلکٹر وقف املاک کیس کا جج کیسے ہو سکتا ہے: وقف ترمیمی بل پر اویسی کا سوال

وقف ترمیمی بل ہمارے توقعات کے خلاف ہے: اصغر علی امام مہدی (Video: Etv Bharat)

نئی دہلی: اس سلسلے میں معروف عالم دین اور جمعیت اہل حدیث کے امیر مولانا اصغر علی امام مہدی سلفی نے خاص بات چیت کی۔ انہوں نے ای ٹی وی بھارت سے خاص بات چیت کے دوران کہا کہ مجوزہ بل میں نہ صرف وقف کی تعریف، متولی کی حیثیت اور وقف بورڈوں کے اختیارات کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی گئی ہے، بلکہ سینٹرل وقف کونسل اور وقف بورڈ کے ممبران کی تعداد میں اضافہ کے نام پر پہلی بار اس میں غیر مسلموں کو بھی لازماً ممبر بنانے کی تجویز لائی گئی ہے۔

سینٹرل وقف کونسل میں پہلے ایک غیر مسلم ممبر رکھا جاسکتا تھا، مجوزہ بل میں یہ تعداد 13 تک ہوسکتی ہے، جس میں دو تو لازماً ہونے ہی چاہئے۔ اسی طرح وقف بورڈ میں پہلے صرف چیرمین غیر مسلم ہوسکتا تھا لیکن مجوزہ بل میں یہ تعداد 7 تک ہوسکتی ہے جب کہ بل کے مطابق دو تو لازماً ہوں گے۔ یہ تجویز دستور کی دفعہ 26 سے راست متصادم ہے جو اقلیتوں کو یہ اختیار دیتی ہے کہ وہ اپنے مذہبی و ثقافتی ادارے نہ صرف قائم کر سکتے ہیں بلکہ اس کو اپنے انداز سے چلا بھی سکتے ہیں۔

موجودہ وقف ایکٹ کے تحت ریاستی حکومت وقف بورڈ کی طرف سے تجویز کردہ دو افراد میں سے کسی ایک کو نامزد کرسکتی تھی جو کہ ڈپٹی سکریٹری کے رینک سے نیچے کا نہ ہو لیکن اب وقف بورڈ کے تجویز کردہ کی شرط ہٹا دی گئی ہے اور اب ڈپٹی سکریٹری کی شرط کو ہٹاکر کہا گیا ہے کہ وہ جوائنٹ سکریٹری کی رینک سے کم نہ ہو۔ یہ ترمیمات واضح طور پر سینٹرل وقف کونسل اور وقف بورڈوں کے اختیارات کو کم کرتی ہے اور حکومت کی مداخلت کا راستہ ہموار کررہی ہے۔

مولانا اصغر علی امام مہدی سلفی نے کہا کہ مجوزہ ترمیمی بل وقف املاک پر حکومتی قبضہ کا راستہ بھی ہموار کرتا ہے۔ اگر کسی جائیداد پر حکومت کا قبضہ ہے تو اس کا فیصلہ کرنے کا کلی اختیار بھی کلکٹر کے حوالہ کردیا گیا ہے۔ کلکٹر کے فیصلہ کے بعد وہ ریونیو ریکارڈ درست کروائے گا اور حکومت وقف بورڈ سے کہے گی کہ وہ اس جائیداد کو اپنے ریکارڈ سے حذف کر دے۔

اسی طرح اگر وقف املاک پر کوئی تنازعہ ہو تو اس کو طے کرنے کا اختیار بھی وقف بورڈ کے ذمہ تھا جو وقف ٹربیونل کے ذریعہ اسے طے کراتا تھا، اب وقف ٹریبونل کا یہ اختیار بھی مجوزہ بل میں کلکٹر کے حوالے کردیا گیا ہے۔ موجودہ وقف ایکٹ میں کسی بھی تنازعہ کو ایک سال کے اندر وقف ٹریبونل کے اندر لانا ضروری تھا، اس کے بعد کوئی تنازعہ سنا نہیں جائے گا۔ اب یہ شرط بھی ہٹادی گئی ہے۔ مجوزہ بل نے کلکٹر اور سرکاری انتظامیہ کو من مانے اختیارات دے دیئے ہیں۔ جب کہ آج کلکٹر کے حکم سے مسلمانوں کی زمینوں پر بلڈوزر چلائے جارہے ہیں، تو پھر وقف املاک کے سلسلے میں ان کے رویہ پر کیسے بھروسہ کیا جاسکتا ہے؟

یہ بھی پڑھیں:

وقف ترمیمی بل، مسلمانوں کی املاک کو ہڑپنے کی سازش: مسلم پرسنل لا بورڈ

کلکٹر وقف املاک کیس کا جج کیسے ہو سکتا ہے: وقف ترمیمی بل پر اویسی کا سوال

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.