لکھنؤ: معروف اسلامی اسکالر مولانا عبدالعلیم فاروقی کا انتقال ہوگیا۔ جس کی وجہ سے ملی و سماجی حلقوں میں سوگ کی لہر دوڑ گئی ہے۔ مولانا کے علمی، ادبی اور مذہبی کارنامے یوں تو کئی ہیں۔ لیکن سب سے اہم مولانا نے پیش پیش رہ کر کے علماء اور صحابہ کی عزت و ناموس پر آنے والی اعتراض کا کھل کر جواب دیا۔ مولانا عبدالعلیم فاروقی کی ولادت 1948 لکھنؤ میں ہوئی۔ انہوں نے 13 برسوں تک متحدہ جمعیت علماء ہند کے ناظم عمومی کی حٰثیت سے خدمات انجام دیں۔ جب کہ جمیعت علماء ہند الف کے ناظم عمومی کے عمومی کے طور پر خدمات انجام دیں۔ آخر میں انہوں نے جمیعت علماء ہند الف کے نائب صدر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ مولانا ایک معروف عالم دین مولانا عبدالشکور فاروقی لکھنؤی کے پوتے اور عبدالسلام فاروقی لکھنؤی کے فرزند اکبر ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:
Maulana Abdul Aleem Islahi Passes Away مولانا عبدالعلیم الدین اصلاحی کا سانحہ ارتحال
انہوں نے ابتدائی تعلیم لکھنؤ میں حاصل کی جب کہ عربی تعلیم جامعہ حسینیہ محمدی لکھیم پور میں حاصل کی۔ اس کے بعد انہوں نے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے مظاہر العلوم سہارنپور کا سفر کیا اور وہاں 1966 سے 1968 یعنی تین برس رہ کر کے علم حدیث، علم فقہ اور تفسیر کی تعلیم حاصل کی۔ ان کے اساتذہ میں مولانا محمد یونس جونپوری بھی شامل ہیں۔ مولانا محمد زکریا کاندھلوی کے فرزند و جانشین محمد طلحہ کاندھلوی سے بیعت ہوئے اور سلسلۂ چشتیہ میں شامل ہوئے۔
مظاہر العلوم کے بعد دارالعلوم دیوبند کا رخ کیا اور وہیں سے فارغ ہوئے۔ صحیح بخاری فخر الدین احمد مراد آبادی سے پڑھی۔ مولانا فاروقی رافضیت اور شیعیت میں اختصاص رکھتے تھے۔ وہ لکھنؤ میں دارالمبغلین کے مہتمم تھے۔ جسے انہوں نے دفاع اسلام اور حقانیت اسلام کی اشاعت کے لیے ایک پلیٹ فارم کے طور پہ استعمال کیا۔ وہ اس وقت مجلس تحفظ ناموس صحابہ لکھنؤ کے صدر تھے۔ سن 1998 سے وہ لکھنؤ میں سالانہ جلوس مدح صحابہ منعقد کراتے آ رہے تھے۔ جس میں ہزاروں مسلمان شریک ہوتے رہے ہیں۔
مولانا فاروقی گنگا جمنی تہذیب، آپسی رواداری کو فروغ دینے پر یقین رکھتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمیں آج ایسے ہندوستان کی ضرورت ہے جہاں مندروں کی حفاظت کے لیے مسلم سماج کے لوگ آگے آئیں اور مسجد کے تحفظ کے لیے برادران وطن آگے آئیں۔ ایک ایسا ہندوستان جس میں نام پوچھ کر اور نام دیکھ کر کسی کا کام نہ ہو۔ ذات برادری کی بنیاد پر کارکردگی نہ دیکھی جائے۔ سب کو مساوی حقوق ملیں۔ مولانا نے کئی کتابیں بھی تصنیف کی ہیں جس میں امیر معاویہ اور معاندین کے اعتراض، آئینۂ مرزا اور مذہب شیعہ کا علمی محاسبہ سمیت کئی مضامین بھی شامل ہیں۔