مرادآباد: مرادآباد کی تاریخی جامع مسجد ہندوستان کی ایسی واحد مسجد ہے جو کسی دریا کے کنارے بسائی گئی اور اس کا وجود آج بھی قائم ہے۔ مرادآباد کی شاہی جامع مسجد کئی معنوں میں دوسری مساجد سے الگ ہے اور اس کی پہچان کسی تعارف کا محتاج نہیں ھے۔ مغلیہ دور میں بنی اس مسجد کی سب سے خاص بات یہ ہے کہ یہ مسجد رام گنگا ندی کے کنارے بنی ہے۔ مغل بادشاہ شاہ جہاں کے دور میں ان کے وزیر رستم خان نے میں مرادآباد کا رخ کیا اور اس مسجد کو تعمیر کرایا تھا۔ اس کی بڑی عمارت قدیم مغلیہ فن تعمیر اور جدید تعمیراتی طرز کا شاندار امتزاج ہے، مسجد کے احاطے میں بیک وقت 10 ہزار افراد نماز ادا کر سکتے ہیں اور سامنے والے پارک سمیت دیگر مقامات پر ایک لاکھ سے زائد لوگ خصوصی دنوں میں یہاں نماز ادا کرتے ہیں۔
اس مسجد کی اہمیت اور خصوصیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ ہندوستان میں ٹی وی پر دکھاۓ جانے والے جنرل نالج کے مشہور شو کون بنے گا کروڑ پتی میں مرادآباد کی جامع مسجد کو لے کر سوال کیا گیا تھا کہ ایسی کون سی مسجد ہے جو رام گنگا ندی کے کنارے بنائی گئی ہے اور اس سب کی بنا پر تقریباً 400 سال بعد بھی مرادآباد کی جامع مسجد ہندوستان کی آن بان اور شان بنی ہوئی ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ اس کو اس طرح سے بنایا گیا ہے کہ اس میں چاروں طرف سے ہوا آتی ہے۔ جس کی وجہ سے شدید گرمی میں بھی گرمی کا احساس نہیں ہوتا ہے۔ سید فہد علی نے جامع مسجد کے پہلے امام سے متعلق بات چیت کرتے ہوئے آگے بتایا کہ اس دور میں مولانا سید عالم علی نے ملک کی آزادی کے لیے انگریزوں کے خلاف آواز بلند کی تو انہیں پھانسی کی سزا دے دی گئی تھی۔ اس وقت علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے بانی سر سید احمد خان کا مرادآباد میں منصف کے عہدے پر تقرر ہوا تھا۔ انہوں نے سید عالم علی کے کیس کی پیروی کی اور عدالت نے ان کو باعزت بری کر دیا تھا۔